ویسے تو روزمرہ زندگی میں اُصولوں پر چلنے کی بہت باتیں کی جاتی ہیں اور زیادہ دفعہ انسان اِن اُصولوں پر چل کر کامیاب بھی ہوتا ہے لیکن سیاست میں اُصول بہت کم آپ کو کامیاب بناتے ہیں، بعض دفعہ تو سیاست میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب آپ اُصولوں پر چل رہے ہوتے ہیں تو کوئی دوسرا چپکے سے اپنا کھیل جما لیتا ہے اور اُصولوں پر چلنے والا خالی ہاتھ رہ جاتا ہے، ویسے تو سیاست پاور حاصل کرنے کا نام ہے اور پاور آپ تبھی حاصل کر سکتے ہیں جب عوامی سپورٹ یا طاقت آپ کے ساتھ ہو لیکن پاکستان میں سیاسی میدان میں نام یا مقام بنانے کے لئے آپ کو اُصولوں کو قربان کرنا ہی پڑتا ہے، اِس حوالے سے پاکستان کے ماضی اور حال کی سیاست میں کوئی خاص فرق نہیں، ماضی میں سیاست میں وہی روایات تھیں جو آج بھی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن یہ حقیقت ضرور ہے کہ کچھ سیاسی تلخیوں میں شدت آئی ہے، گالم گلوچ کا کلچر پہلے بھی تھا اور اب تو پاکستان کی سیاست میں یہ کلچر پروان چڑھ چکا ہے، برداشت کی قوت ناپید ہو چکی ہے، اقتدار حاصل کرنے کے لئے رسہ کشی ماضی میں بھی رہی اور اب بھی یہ روایت بدستور برقرار ہے۔
(جاری ہے)
پاکستان کی سیاست میں اُصول ہمیشہ سے ہی ناپید رہے ہیں، اگر کسی نے اُصولوں پر چلنے کی بات کی بھی تو اُسے سائیڈ لائن لگا دیا گیا، یا پھر طاقت ور حلقوں نے عوامی سپورٹ حاصل کرنے والے لیڈران کو اُن کے حق سے محروم رکھا، یہ سب گاہے بگاہے چلتا رہا، 1947 سے لے کر 1958 تک تو سیاسی منڈی لگی رہی ، ایک لمحے وزیراعظم بنتا تو دوسرے لمحے ہی وہ کسی وجہ کی بنیاد پر اقتدار سے فارغ کر دیا جاتا، یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ ایوب خان کے دورِ اقتدار میں چاہے 1665 کے صدارتی انتخابات ہوں یا پھر ستر کی دہائی میں اپوزیشن کی یلغار، یا اِس یلغار میں ضیاءالحق صاحب کی للکار، یوں یہ سلسلہ بدستور چلتا رہا اور نوے کی دہائی میں دو جمہوری پارٹیوں میں ٹھن گئی، پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں اقتدار حاصل کرنے کی رسہ کشی زوروشور سے جاری رہی اور تمام سیاسی اقدار اور اُصولوں کو پامال کیا گیا، نواز شریف صاحب کو جب اقتدار سے ہٹا کر مارشل لاء لگایا گیا تو اِنہی کے پارٹی لیڈران نے بغاوت شروع کر دی اور اُڑان بھر کر دوسری پارٹیوں کے آشیانے کو اپنا مسکن بنایا، یوں پاکستانی سیاست میں لوٹا کلچر پروان چڑھا جو اب بھی جاری ہے، 2008 میں جب پاکستان پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالی تو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی پر تابڑ توڑ حملے کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، پارلیمنٹ کے باہر اور اندر سیاسی لیڈران نے ایک دوسرے کی خوب پگڑیاں اُچھالیں اور نوے کی دہائی کی سیاست کو ایک بار پھر دہرایا، لیکن سیاسی منظر نامے کے حالات میں زیادہ بگاڑ اُس وقت پیدا ہوا جب پاکستان مسلم لیگ ن 2013 میں برسرِ اقتدار آئی اور عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف نے اپوزیشن کی کمان سنبھالی، تحریکِ انصاف میں سیاسی نابالغ نوجوانوں کی اکثریت ہونےکی وجہ سے اُصولوں کو اِس حد تک پامال کیا گیا جس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے، کیا چھوٹا یا چاہے بڑا ہو سب نے سیاسی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے، سیاسی احترام جو کسی حد تک موجود تھا وہ بھی ناپید ہو گیا، یعنی کہ پاکستان میں ایسی نسل تیار ہو گئی یا کی گئی جو سیاست اقدار سے بلکل ناواقف تھی، اِس سارے گورکھ دھندے میں سیاسی لیڈروں کا کردار انتہائی مایوس کن تھا جنھوں نے ایسی روایات کو پروان چڑھایا اور زنگ آلود سیاسی کلچر کو مزید تباہ کیا، اقتدار کا نشہ تو سیاستدانوں نے کیا لیکن اِس نشے کے اثرات عوام پر بھی دیکھے گئے کیونکہ عوام سچ یا جھوٹ میں فرق کرنا ہی بھول گئی، عوام کو ایسے سنہری خواب دکھائے گئے کہ عوام نے من وعن اِن کو تسلیم کیا لیکن یہ خواب وقت سے پہلے ہی چکنا چور ہو گئے، موجودہ پی ڈی ایم کا اتحاد ہو یا ماضی میں بھٹو کے خلاف بنایا گیا پاکستان نیشنل الائنس ہو، سبھی کے ذاتی مفادات قومی مفادات پر ہاوی تھے، پاکستان نیشنل الائنس ضیاءالحق کے مارشل لاء کی وجہ بنا اور آج پی ڈی ایم کا اتحاد ذاتی مفادات کی بنا اپنے ایجنڈے کے حصول سے پہلے ہی بکھر گیا،نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کی حریف رہنے والی جماعتوں کا اب کی بار سیاسی اتحاد بہت سے سیاسی حلقوں کی نظر میں ذاتی مفادات کی بنا پر ہی ممکن ہوا اور جب انہی ذاتی مفادات کے حصول میں دشواری پیش آئی تو ایک بار پھر دونوں جماعتیں حلیف سے حریف بن گئیں، یعنی کہ پاکستان کی سیاست میں اُصولوں پر چلنا ویسے بھی ناممکن سی بات ہے، کیونکہ اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے جو زیادہ مفاد پرست ہوگا یا اُصولوں کا قتلِ عام کرے گا وہ اُتنا زیادہ مال سمیٹے گا، ورنہ خالی ہاتھ رہ جائے گا اور یہی پاکستان کی سیاست کا خلاصہ بن چکا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔