پیپلز پارٹی کی گھوٹکی میں بڑی منصوبہ بندی کامیاب ہو گئی
بدھ 4 نومبر 2020
(جاری ہے)
پیپلز پارٹی کا با اثر خاندان گذشتہ کئی ماہ سے اختلافات کا شکار تھاچند ماہ قبل محمد بخش مہر کی جانب اپنی بہن کا رشتہ سرداری روایات کے برعکس درگاہ بھر چونڈی شریف کے میاں عبدالمالک عرف میاں مجن سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے باعث مہر خاندان میں بغاوت پھوٹ پڑی تھی ۔قبیلے کے ایک گروپ کی جانب سے مہر قبیلے کی سرداری محمد بخش مہر سے واپس لینے پر زور دیا جا رہا تھا بعد ازاں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے تعلق رکھنے والے ان کے رشتہ دار علی گوہر مہر کی جانب سے قبیلے کی سرداری کی پگڑی پہن لی گئی تھی۔ اس سلسلے میں گذشتہ دنوں خان گڑھ گوہر پیلس میں قبیلے کے نئے سردار کی تقرری کی تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا تھا جس میں مہر خاندان کے ایک گروپ کی جانب سے علی گوہر مہرکی سربراہی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شرکت کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے تمام تر عمل سے لا تعلقی کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ علی گوہر مہر کی پارٹی کے سربراہ پیر پگارا کی جانب سے بھی انہیں قبیلے کی سرداری سونپنے پر شدید مخالفت سامنے آ ئی تھی، جس کے بعد سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سرداری کے حصول کے لیے گھوٹکی میں مہر قبیلے کے لوگوں کو رام کرنے کا عمل تیزی سے جاری تھا جس میں پارٹی قیادت کی مرتب کردہ حکمت عملی ِ کامیاب دکھا ئی دے رہی ہے۔
اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی علی گوہرمہر کے اہم اتحای بوزدار قبیلے کے سردار رحیم بخش بوزدار ،سنگھر برداری کے سردار سردار خان،سلیم اللہ خان کلور کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے جبکہ ہالار خان پتافی، سابقہ صوبائی وزیر نادر اکمل لغاری سمیت دیگر اتحادیوں کو پارٹی میں دوبارہ شمولیت کروانے کے لئے سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے ۔حالیہ دنوں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سابقہ ایم پی اے احمد علی پتافی کے بیٹے ہالار خان پتافی سے رابطے شروع کردیئے ہیں جس کے تحت انہیں سندھ حکومت میں صوبائی مشیر بنانے کی پیشکش کی گئی ہے آ ئندہ چند روز میں ان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت متوقع ہے ۔واضح رہے ہالار خان پتافی صوبائی وزیر فشریز اور لائیو اسٹاک عبدالباری خان پتافی کے بھائی ہیں، دو سال قبل والد احمد علی خان پتافی کے انتقال پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں عبدالباری پتافی اور ہالار خان پتافی کے مابین شدید اختلاف پیدا ہوگئے تھے جس کے بعد ہالار خان پتافی پیپلز پارٹی سے الگ ہوکر مہر گروپ میں شامل ہوگئے تھے۔
مہر خاندان کا سیاسی اتحاد توڑنے کے بعد پیپلز پارٹی کی حلقے میں پوزیشن انتہائی مضبوط دکھائی دیتی ہے علی گوہر مہر کے قریبی ساتھی آہستہ آہستہ ان سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ تمام تر محرکات کی بنیادی وجہ پیپلز پارٹی کی ان پر خصوصی نوازشات بتائی جاتی ہیں جبکہ ان کے حامیوں کیخلاف انتقامی کارروائیوں کا بھی سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے جس کے تحت گذشتہ دنوں ان کے متعدد ساتھیوں کے گھروں میں سرکاری اراضی پر قبضے سے متعلق نوٹسز بھی چسپاں کیے گئے ہیں۔ گھوٹکی میں مہر خاندان میں پہلی پھوٹ 2018کے عام انتخابات میں پڑی تھی جس کے تحت صوبے کی حکمران جماعت کی جانب سے علی محمد خان کو پارٹی کا ٹکٹ دینے سے انکار کرتے ہوئے این اے 205سے اپنا امیدوار محمد بخش مہر کونامزد کیا تھا جس کے بعد علی محمد خان مہرنے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیاتھاا ور کامیابی کا صحرا سجاتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر کے وفاقی وزیر کا قلمدان سنبھالا تھا۔ بعد ازاں 2019 میں دل کا دورہ پڑنے سے وہ انتقال کر گئے تھے ۔ انکی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں ان کے بیٹے احمد علی مہر نے اپنے ماموں یعنی محمد بخش مہر کے مد مقابل انتخابات میں حصہ لیا تھا جس میں انہیں تحریک انصاف اور جی ڈی اے سے تعلق رکھنے والے ان کے چچا علی گوہر مہر کی غیر مشروط حمایت حاصل تھی جس کے بعد بھی وہ کامیابی اپنے نام کرنے میں ناکام رہے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کے عام انتخابات میں شکست کا سامنا کرنے والے محمد بخش خان مہر حلقے سے کامیاب ٹھہرے تھے ،جس کے بعد سے مہر خاندان گروپ بندی کا شکار ہے۔ اس ضمن میں خاندانی سرداری ورثے میں حاصل کرنے والے محمد بخش مہر کو قبیلے سے تعلق رکھنے والی با اثر شخصیات کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا تھا جس میں ان کے گذشتہ دنوں گھریلو فیصلے نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ بعد ازاں احمد علی مہر کے چچا علی گوہر مہر کی جانب سے مہر خاندان کی پگ پہن لی گئی ہے جس کے بعد سے پیپلز پارٹی کا حلقے میں کردار نہایت متحرک دکھائی دے رہا ہے۔ علی گوہر مہر کے ساتھیوں کی جی ڈی اے سے دوسری جماعتوں میں شمولیت نے انہیں حالیہ دنوں سیاسی تنہائی کا شکار کر دیا ہے آ ئندہ آ نے والے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے گھوٹکی سے کلین سوئپ کرنے کے امکانات واضح ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شعیب مختار کے کالمز
-
نمرتا کماری سے نوشین کاظمی تک
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
کراچی کی دوسری اسٹریٹ لائبریری تباہ حالی شکار
پیر 28 دسمبر 2020
-
متحدہ پاکستان کا کیس۔۔۔۔۔۔۔متحدہ لندن پراثرانداز ہو گیا
بدھ 11 نومبر 2020
-
پیپلز پارٹی کی گھوٹکی میں بڑی منصوبہ بندی کامیاب ہو گئی
بدھ 4 نومبر 2020
-
گرفتاریوں کا موسم پھر آ گیا
بدھ 28 اکتوبر 2020
-
پی ڈی ایم کا سیاسی رومانس ختم کرنے کا حکومتی منصوبہ ناکام ہو گیا؟
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
نیب پی ٹی سی ایل کا اتحادی بن گیا محکمے کی بد عنوانیوں پر آنکھیں بند کر لیں
جمعہ 2 اکتوبر 2020
-
پیپلز پارٹی کا با اثر خاندان اختلافات کا شکار کیوں؟
اتوار 27 ستمبر 2020
شعیب مختار کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.