نمرتا کماری سے نوشین کاظمی تک

ہفتہ 27 نومبر 2021

Shoaib Mukhtar

شعیب مختار

یہ بات زیادہ پرانی نہیں سال 2019 کی ہے جب 16 ستمبر کو چانڈکا میڈیکل کالج فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا کماری چانڈکا ہاسٹل میں مردہ پائی گئی تھیں انکے قریبی عزیز و اقارب  کی جانب سے اس بات کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا گیا تھا کہ انہوں نے خودکشی کرنے کی کوشش ہے اس سلسلے میں تفتیش کے لیے ایف آئی اے، پنجاب فارنزک ایجنسی، نادرا، لمس جامشورو، کیمیکل ایگزمن سمیت متعدد اداروں سے بھی مدد بھی لی گئی تھی جس کی تحقیقات سامنے آنے سے قبل نمرتا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ نےتمام تر محرکات کی قلعی کھول کر رکھ دی میڈیکل رپورٹ میں انکشاف سامنے آیا تھا کہ موت سے قبل نمرتا کے ساتھ جنسی عمل کیا گیا ہے جبکہ لیبارٹری رپورٹ میں نمرتا کے جسم سے کسی اجنبی شخص کا ڈی این اے ملنے کی تصدیق بھی کی گئی تاہم اس شخص کی شناخت نہ ہوسکی نمرتا کے بھائی اور ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے کنسلٹنٹ فزیشن ڈاکٹر وشال کی جانب سے بھی بہن کی موت کو خود کشی ماننے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

تمام تر معاملے پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے نمرتا قتل کیس کی عدالتی تحقیقات کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی جبکہ نمرتا کے اہلخانہ کے اصرار پر معاملے کی جوڈیشل انکوائری کو بھی یقینی بنایا گیا تھا جوڈیشل انکوائری رپورٹ آنے سے قبل نمرتا کے اہلخانہ کی جانب سے کسی بھی فرد کیخلاف قانونی کارروائی نہ کروانے کا فیصلہ گیا تھا بعد ازاں چند ماہ بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاڑکانہ کی جانب سے مکمل کی گئی جوڈیشل انکوائری رپورٹ نے تفتیش کا دائرہ انتہائی محدود کر دیا اس رپورٹ میں نمرتا کی موت کو خودکشی قرار دیا گیا تھا جو ہوم سیکریٹری سندھ کو بھیجی گئی تھی تمام تر امور میں زیادتی کا شکار طالبہ ہی قصوروار ٹھہرائی گئی اور یوں اس کا قتل خودکشی قرار دے کر ہائی پروفائل انکوائری سرخانے کی نذر کر دی گئی پولیس کی جانب سے اس خودکشی کا نہ تو مقدمہ درج کرنے کی زحمت کی گئی نہ ہی اہلخانہ نے اس بابت پر مزید تحقیقات کرنے کی کوشش کی اور یوں نمرتا اپنی موت کو خودکشی قرار دینے کے ساتھ ساتھ کاغذی کارروائیوں میں بھی دفن ہو گئی جس پر عورتوں کے حقوق پر بڑھ چڑھ کر بات کرنے والی اور فریئر ہال پر پلے کارڈ اٹھانے والے سرکار بھی خاموش تماشائی دکھائی دی دیکھتے ہی دیکھتے دو سال بیت گیا اور پھر اچانک چانڈکا ہاسٹل میں 24 نومبر 2021 کی دوپہر ایسی ہی ایک اور پراسرار خودکشی سامنے آئی خودکشی کرنے والی لڑکی کی شناخت نوشین کاظمی سے ہوئی ہے جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس واقعے کو بھی خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے بظاہر پنکھے سے لٹکی لاش بھی اپنی روداد اپنے آپ سنا رہی ہے کہ اس کی وہاں موجودگی سوچی سمجھی سازش ہے خیر آج نہیں تو کل اسکے مجرم بھی ہمیشہ کی طرح قانون کی پہنچ سے دور رہینگے جب تک انصاف کے ترازو چند ٹکوں میں بکتے رہینگے سوشل میڈیا پر ریٹنگ کی دوڑ میں شامل ہر کوئی اس خودکشی کو بھی فیس,ٹوئٹر اور واٹس ایپ پر انصاف دلوائے گا جبکہ سیاسی جماعتیں بھی دکھاوے کی تعزیت کر کے خوب سیاست چمکائیں گیں حکام بالا بھی واقعے پر افسوس کرینگے لیکن کوئی انتظامیہ کیخلاف شفاف انکوائری کے لیے کچھ نہ بولے گا جرم بڑھتا رہے گا قاتل محفوظ رہے گا .میرے خیال میں آج اگر ہمارا معاشرہ نمائشی دکھاوے کی دوڑ  سے نکل کر نمرتا کے معاملے پر سنجیدہ ہوتا تو شاید نوشین کاظمی کی خودکشی کا واقعہ کبھی رونما نہ ہوتا اب بھی ضرورت اس بات کی ہے اس معاملے کی انتہائی باریک بینی سے شفاف انکوائری کروائی جائے اور اس واقعے کو جعلی خودکشی قرار دینے والوں کیخلاف محاذ آرائی کو یقینی بنایا جائے تاکہ آئندہ مستقبل کی ایسی نمرتا اور نوشین سماج میں موجود وحشی درندوں سے محفوظ ہو سکیں آخر میں ان دو واقعات کو دیکھ کر بس ایک شعر شدت سے یاد آتا ہے ۔


جانے کون مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان بنا پھرتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :