پی ڈی ایم کا سیاسی رومانس ختم کرنے کا حکومتی منصوبہ ناکام ہو گیا؟

جمعرات 22 اکتوبر 2020

Shoaib Mukhtar

شعیب مختار

مزار قائد کے تقدس کی پامالی اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کا معمہ کئی روز گزر جانے کے باوجود بعد بھی تاحال اب تک حل نہیں ہو سکا ہے سندھ حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ سے دباؤ میں فیصلہ لینے کی تصدیق کر دی گئی ہے جبکہ شدید غم و غصے میں مبتلا سندھ پولیس کے اعلیٰ ا فسران کی بغاوت نے بھی با اثر حلقوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے 18اکتوبر کو پی ڈی ایم کے جلسے میں کراچی آ مد پر لیگی کارکنوں کی جانب سے مزار قائد میں بڑی تعداد میں حاضری کو یقینی بنایا گیا تھا جس میں کیپٹن صفدر کی جانب سے مزار کے احاطے میں شدید نعرے بازی کی گئی تھی۔

اپوزیشن کے اس رویے پر وفاقی حکومت کی جانب سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا بعد ازاں اگلے روز پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ تھانہ بریگیڈ پہنچے جس میں ان کی جانب سے ایس ایچ او سے مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی گئی تھی جس کے تحت پی ٹی آ ئی کے کارکن وقاص احمد کی مدعیت میں 200 افراد سمیت ان کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں جان سے مارنے کی دھمکی ،سرکاری املاک کو نقصان اور مزار قائدایکٹ کی خلاف ورزی کی دفعات شامل تھیں۔

(جاری ہے)

اس ضمن میں گذشتہ روز کیپٹن(ر) صفدر کو علی الصباح کراچی کے نجی ہوٹل سے سندھ پولیس کی جانب سے مقدمہ نمبر 591/2020 کے تحت حراست میں لیا گیا تھا اور تھانہ عزیز بھٹی منتقل کیا گیا تھا بعد ازاں عدالت میں پیشی پر ان کی ضمانت ایک لاکھ مچلکوں کے عیوض منظور کی گئی تھی جس کے تحت 11گھنٹے بعد رہائی عمل میں آتے ہی ان کی جانب سے لاہور کا رخ کر لیا گیا ہے ۔


 سندھ حکومت مہمانوں کے ساتھ پیش آ نے والے واقعے پر شدید تشویش میں مبتلا دکھائی دیتی ہے جس کے تحت وزیر اعلیٰ ،وزیر اطلاعات سندھ اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین واقعے پربرہمی کا اظہار کر رہے ہیں گذشتہ روز بلاول بھٹو کی جانب سے آرمی چیف اور ڈی جی آ ئی ایس آئی سے واقعے پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس پر انکوائری بیٹھ چکی ہے۔

اسلسلے میں سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران بھی آ ئی جی سندھ پر دباؤ ڈالنے کی شدید مذمت کر رہے ہیں جس کے تحت گذشتہ روز آئی جی سندھ مشتاق مہر سمیت مختلف شہروں کے آ ئی جی ،ایڈیشنل آئی جی ،ڈی آئی جی ، ایس ایس پی رینک کے افسران جن میں عمران یعقوب منہاس ،ڈاکٹرکامران فضل ،ڈاکٹرامیر احمد شیخ ،غلام نبی میمن ،مظفر علی شاہ ،محمد عارف حنیف ،محمد امین یوسفزئی ،خادم حسین رند ،عبداللہ شیخ ،ذوالفقار علی لاڑک مظہر نواز شیخ ،آصف اعجاز شیخ ثاقب اسما عیل میمن ،کیپٹن عاصم خان ،نعیم احمد شیخ ،ناصر آفتاب ،منیر احمد شیخ ،عمر شاہد حامد،جاوید اکبر ریاض،مقصود احمد،قمر الزمان ،محمد نعمان صدیقی ،عبدالحمید سنجرانی ،جنید احمد شیخ ،کیپٹن فیصل عبداللہ،سرفراز نواز ،محمد انور خطیران ،عدیل حسین چانڈیو ،امجد احمد شیخ ،شاہ ابن مسیح ،عامر عباس شاہ ،طارق رزاق دھاریجو ،عمران قریشی ،سمیع اللہ سومرو ،شبیر احمدسیتہر ،کیپٹن امیر سعود ،ڈاکٹر فرخ رضا قمر رضا جسکانی ،خاور اکبر شیخ ،مختار احمد خاشخیلی ،سجاد عامر صدوزل ،عرفان علی سمو ،کیپٹن محمد اسد علی چوہدری ،عبداللہ احمد ،غلام مرتضیٰ تبسم ،مسعود احمد بنگش ،حسن سردار احمد خان ،محمد عارف اسلم ،توقیر محمد نعیم ،کامران نواز پنجوتہ ،عمر طوفیل ،عابد علی بلوچ ،عمران ریاض ،رخصار احمد خوہاور ،شاہجہان خان ،محمد عمران خان ،الطاف حسین لغاری اور محمد تبسم عباسی شامل ہیں کی جانب سے سندھ حکومت سے چھٹی کی درخواست کی گئی تھی جس کے بعد پوری پولیس فورس کئی گھنٹوں تک کھلبلی کا شکار رہی بعد ازاں فوری طور پر صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے بلاول بھٹوزرداری اوروزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ آ ئی جی ہاؤس پہنچے تھے جہاں ان کی جانب سے آ ئی جی سندھ سے ملاقات کو یقینی بناتے ہوئے سندھ پولیس کی لازوال قربانیوں اور ان کی محکمے سے متعلق خدمات کو سراہا گیا تھا۔

اس دورانیے میں بلاول بھٹوزرداری اورآرمی چیف کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا تھا جس میں امن و امان کی صورتحال اور کراچی واقعے سے متعلق اہم امور زیر بحث آ ئے تھے بعد ازاںآ رمی چیف کی جانب سے کور کمانڈر کراچی کوواقعے کی تحقیقات کرنے اور تمام تر حقائق سامنے لانے کی ہدایت دے دی گئی ہے جس کے بعد آ ئی جی سندھ کی جانب سے سندھ پولیس کے تمام تر افسران سے چھٹی کی درخواستیں دس دن کے لیے ملتوی کرنے پر زور دیا گیا ہے تاہم آرمی چیف کے واقعے سے متعلق نوٹس لیتے ہی سندھ پولیس میں پیدا ہو ااعتماد کا بحران ایک مرتبہ پھر بحال ہو تا دکھائی دیتا ہے جسے سندھ حکومت سمیت مقتدر حلقے خوش آ ئین عمل قرار دے رہے ہیں ۔


 حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے 11 اپو زیشن جماعتوں کی بنائی گئی پاکستان ڈیموکریٹک مووؤمنٹ بھی وفاقی حکومت کے اوچھے ہتھکنڈوں کی شدیدمذمت کرتی دکھائی دیتی ہے اس ضمن میں آئی جی سندھ کی ونگ کمانڈر کے پاس طلبی اور غیر قانونی طور پر حراست میں لیے جانے اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری سے متعلق آرڈر جاری کراونے پر سخت مذمت کی جا رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر کی لیک آ ڈیو کو بھی خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔

آ ئی جی سندھ کے اغوا نے کراچی کے شہریوں میں بھی بے یقینی پیدا کر دی ہے شہریوں کی جانب سے موقف اپنایا جارہا ہے جو سندھ پولیس آئی جی سندھ کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے وہ بھلا عوام کا دفاع کیسے کر سکتی ہے ۔
 پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے قیادت کوکیپٹن ریٹائرڈ صفدر کیخلاف مقدمہ درج کروانے والے وقاص احمد کیخلاف قانونی چارہ جوئی کو حتمی شکل دینے کی تجویز پیش کر دی گئی ہے وقاص احمد پی ٹی آ ئی کے رہنما حلیم عادل شیخ کا قریبی رشتہ دار بتایا جاتا ہے جبکہ اس کیخلاف سائٹ سپر ہائی وے میں 513/2019 کے تحت مقدمہ بھی درج ہے جس میں تجاوزات کیخلاف رکاوٹ بننے ،پتھراؤ کرنے اور پولیس موبائل کو نقصان پہنچانے کی دفعات شامل ہیں وقاص کے مقدمے میں 57افراد بھی نامزد ہیں تمام تر ملزموں کیخلاف کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی گذشتہ کئی ماہ میں عمل میں نہیں آ سکی ہے جس میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان تحریک انصاف کی مداخلت بتائی جاتی ہے۔

تین روز قبل وقاص احمد کی مدعیت میں پی ڈی ایم کے اہم رہنما کیخلاف مقدمہ درج ہونے پر سندھ سرکار نے مدعی کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے تحت ملزم اور اس کے ساتھیوں کی تحقیقات کی منظوری دیدی گئی ہے صوبائی حکومت کی جانب سے ایک ہفتے میں ملزم سے متعلق رپورٹ پیش کرنے پر سندھ پولیس کوپابند کیا گیا ہے اس سلسلے میں ملزم نے گرفتاری سے بچنے کے لیے گذشتہ روز اپنی حفاظتی ضمانت منظور کروانے کے لیے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دی تھی جو 30ہزار مچلکوں کے عیوض منظور کر لی گئی ہے عدالت کی جانب سے 10روز میں ملزم کو متعلقہ تھانے جانے کی ہدایت کی گئی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :