الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پہ اس قدر بحث کیوں‌۔۔۔؟

پیر 31 مئی 2021

Syed Arif Mustafa

سید عارف مصطفیٰ

اچھی بات کسی طرف سے بھی آئے اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے اور اسی طرز فکر کے تحت عمران خان کی حکومت سے ہزاروں اختلافات سہی ، مگر الیکشن کو شفاف بنانے کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‌ کے استعمال کی تجویز کو سراہا جانا چاہیئے اور اسکا بھی میں بھی حامی ہوں ، بس عملی نیت اور پوری کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ یہ کام اخلاص اور ایمانداری سے اور ہرممکن فول پروف طریقے سے کیا جائے - آخر دنیا بھر میں اکثر ممالک میں خصوصآً ہمارے پڑوس میں تو انہی مشینوں‌کے ذریعے عوامی نمائندوں کا چناؤ عمل میں آتا ہے اور ہم سے سات گنا بڑی آبادی والے ملک بھارت میں تو الیکشن کبھی اس قدر مشکوک کبھی نہیں ہوتے ، جبکہ وہاں‌بھی بیشمار سیاسی پارٹیاں ہیں جو ایک دوسرے کی شدید مخالف ہیں اور ایک دوسرے کو ہرسطح پہ رگڑتی نظر آتی ہیں مگر کوئی بتائے کہ آخر اس قدر بڑی جمہوریت میں انتخابی نتائج اس طرح متنازع کیوں نہیں بنتے۔

(جاری ہے)

۔؟؟
 
بدقسمتی سے سابقہ کئی حکومتوں‌کی طرح اس حکومت کے دور میں بھی ضمنی الیکشنوں میں حکومتی اثر و رسوخ کے بل پہ بدعنوانیاں کی جاتی رہی ہیں اورماضی قریب کے کئی ضمنی الیکشنوں سے یہ ناقابل تردید حقیقت بھرپور طور پہ سامنے آتی رہی ہے- اور چونکہ انتظامی سطح پہ جس طرح سے بیلٹ بکس کے تقدس کو پامال کرنے کی بیشمار مثالیں‌ سامنے آئی ہیں اس کے باعث اپوزیشن ہی نہیں ہر دردمند محب وطن کو حکومت کی نیت پہ بھرپور بجا طور پہ متعدد شکوک و شبہات ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر منصفانہ و جائز طور پہ انکا ازالہ نہ کیا گیا تو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے نتائج زیادہ منظم اور انجینیئرڈ بے ایمانی کے عکاس بھی بن سکتے ہیں کیونکہ ان مشینوں‌اور انکے سوفٹ ویئر کا انتظآم تو بہر حال کچھ افراد ہی کے ہاتھوں‌ میں‌ہوگا اور یہی وہ پہلو ہے کہ جس کو لے کر اپوزیشن اور دیگر متعلقہ حلقے شور و غوغا کر رہے ہیں - لہٰذا اہم تر بات یہ ہے کہ ان مشینوں کا انتظام قابل بھروسہ بنایا جائے - اس تناظر میں اہم تر بات ہی یہ ہے کہ ان مشینوں‌کا انتظام سنبھالنے والے یہ لوگ کون ہونگے اور انہیں کس طرح کسی طاقتور کی خواہشات کا چارہ بننے سے روکا جاسکے گا- میرے نزدیک اسکا مناسب حل یہ ہے کہ  ان الیکٹرانک مشینوں کے استعمال کے لئے عدلیہ کی نگرانی میں الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کی مشاورت سے مستقل بنیادوں پہ ٹیکنیکل ماہرین کا ایک بااختیار بورڈ تشکیل دیا جائے جو کہ اس سارے معاملے کو شفاف بنانے اور شفائے بنائے رکھنے کا کل وقتی بنیادوں‌پہ ذمہ دار ہو - اور جسکے چیک اینڈ بیلنس کا واضح اور فول پروف نظام بہر صورت روبہ عمل رکھا جائے-
یہ بھی ضروری ہے کہ 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں دور دراز پھیلے ہوئے حلقوں‌کے نتائج ایک ساتھ مرتب ہونے پہ اصرار ترک کرکے اب مرحلہ وار انتخابات کی طرف آیا جائے اور ملک بھرکے انتظامی ڈویژنوں کے چھ سات گروپ بناکے ان میں مرحلہ وار انتخابات کروائے جائیں جس سے کلی طور پہ نہ بھی  سہی مگر کسی حد تک صوبائیت اور لسانی سوچ کے نعروں کو پسپا کیا جانا بھی ممکن ہوسکے گا-  سوال یہ کہ ہم آخر ہم کب تک اپنے جمہوری نظام کی اصلاح کی کوششوں‌سے منہ موڑے رکھ کر ہر الیکشن کے بعد انکے نتائج کے حوالے سے چند منہ زوروں کے ہاتھوں اپنا تماشا بناتے رہیں‌ گے ۔

۔۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ اب یہ گھناؤنا کھیل بند ہونا چاہیئے اور اپنے جمہوری نظام کی اصلاح کے ذریعے ہمیں اقوام عالم میں ایک سنجیدہ اور ذمہ دار قوم کے طور پہ ابھرنا چاہیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :