جمعیت علماء اسلام کے باغی

منگل 29 دسمبر 2020

Syed Farzand Ali

سید فرزند علی

پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم )کی عمران خان حکومت مخالف تحریک میں جمعیت علماء اسلام (ف)بنیادی رول اداکرتے ہوئے ہر طرح سے کوشش کررہی ہے کہ کسی طرح سے بھی تحریک انصاف کے اقتدار کا خاتمہ کیاجائے کیونکہ مولانا فضل الرحمن اکیلے موجودہ حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اس لئے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے ایک دوسرے کے بدترین حریفوں مسلم لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاکیا تاکہ عمران خان کو ہٹایاجائے ان کی کوشش ہے کہ قومی وصوبائی اسمبلیوں میں اکثریت رکھنے والی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کو کسی طرح اسمبلیوں سے باہر سڑکوں پر لایاجائے او اس اسمبلی کا وجود ختم کردیاجائے جس میں وہ داخل نہیں سکے ۔


اس سے پہلے کہ حکومت مخالف تحریک کسی نتیجہ پر پہنچتی اس سے پہلے ہی جمعیت علماء اسلام (ف)کے اہم رہنما مولانا محمد خان شیرانی نے مولانا فضل الرحمن کوسلیکٹڈ قراردیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی ناصرف تعریف کردی بلکہ یہ دعویٰ بھی کردیا کہ موجودہ حکومت ناصرف اپناوقت مکمل کرئے گی بلکہ اگلے پانچ سال بھی عمران خان کی حکومت ہوگی مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان سے ہمیشہ جھوٹ بولنے کے معاملے پر اختلاف رہا اور آئندہ بھی رہے گا کیونکہ وہ جھوٹ بولنے کے ماہر ہیں موجودہ پی ڈی ایم تحریک ذاتی مفادات کیلئے قائم ہوئی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کیلئے فضل الرحمان جلسے جلوس کررہے ہیں جمعیت علماء اسلام (ف)کے مولانا محمد خان شیرانی نے مولانا فضل الرحمن کو تنقید کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں اسرائیل متعلق متنازعہ بیان بھی جاری کردیا کہ اسرائیل کو دو ریاستی حل کے تحت تسلیم کیاجاسکتاہے ان دونوں بیانات سے جمعیت علماء اسلام کو سیاسی طورپر دھچکا لگا جس پرجے یوآئی کے مرکزی قیادت نے نوٹس لیا اوراسرائیل موقف بارے متنازعہ موقف رکھنے پرمولانا محمد خان شیرانی کوجماعت کے اندر تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔

(جاری ہے)


جمعیت علماء اسلام(ف) کے اندر مولانا محمد خان شیرانی مخالف آوازیں اٹھنے پر جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمن سے ناراض قائدین مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک بھی کھل کرمولانا محمد خان شیرانی کی حمایت میں نکل آئے جبکہ اس سے قبل نومبر2020ء جمعیت علماء اسلام (ف)کے مرکزی ترجمان وسیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد کو بھی پی ڈی ایم قیادت نوازشریف کے بیانئے کی مخالفت میں بیان دینے کے جرم میں جماعتی عہدہ سے ہٹا چکی تھی اسطرح مولانا محمد خان شیرانی ،مولانا گل نصیب ،مولانا شجاع الملک اورحافظ حسین احمد ایک طرف کھڑے ہوگئے ۔


مولانا محمد خان شیرانی چونکہ جمعیت علماء اسلام کے بانی اراکین میں شامل ہیں اوروہ جماعت کے اندر مولانا فضل الرحمن سے بڑی قدآور شخصیت سمجھے جاتے تھے اس لئے مولانا فضل الرحمن کوہمیشہ خدشہ رہتاتھاکہ مولانا محمد خان شیرانی کسی وقت بھی میرے مقابلے میں امیر منتخب ہوسکتے ہیں ماضی میں ایک ایسا مرحلہ گذربھی چکاتھاجب مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں مولانا محمد خان شیرانی نے امیرکیلئے اپنا نام پیش کیا جس پر مولانا فضل الرحمن کو تشویش ہوئی اور انہوں نے تین دن تک جماعتی الیکشن کی ووٹنگ نہیں ہونے دی جب تک مولانا محمد خان شیرانی کو قائل نہیں کرلیا گیا کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے حق میں دستبردار ہوجائیں اوربلاآخر یہ گروپ کامیاب ہوگیا اورمولانا محمد خان شیرانی کی طرف سے اپنا نام واپس لینے پرمولانا فضل الرحمن بلامقابلہ جمعیت علماء اسلام کے امیر منتخب ہوگئے جس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے جماعت کے اندر اپنے ہم خیال لوگوں کو اہم عہدوں پر لانے کافیصلہ کیا اورمختلف مراحل میں ایسے تمام افراد کو سائیڈلائن کردیاجن سے انہیں جماعت کے اندر سیاسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھاپہلے مرحلے میں انہوں نے مولانا احمد شیرانی کو سائیڈلائن کرنے کیلئے مولانا عبدالواسع سمیت ایسے افرادکو بلوچستان میں جماعتی ذمہ داریاں دی گئیں جس سے مولانا محمد خان شیرانی کی بلوچستان میں اہمیت کم ہوکر رہ گئی جمعیت علماء اسلام (ف)کے مرکزی قائدین میں حافظ حسین احمد کا بھی تعلق بلوچستان سے ہے وہ بھی جماعت کی قدآور شخصیت میں شمار کئے جاتے ہیں مولانافضل الرحمن کے بعد اگر میڈیا میں سیاسی طوپرجمعیت کی کسی شخصیت نے جگہ بنائی تو اسکا نام حافظ حسین احمد ہے وہ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے ذہین رہنما ہیں انہیں پہلے بھی مولانا فضل الرحمن کے فیصلوں پرتنقید کی وجہ سے سائیڈلائن کیاگیا اس دوران وہ شدید بیمار بھی رہے جس کے بعد جماعتی ساتھیوں نے ایک بارپھر مولانا فضل الرحمن کو قائل کرلیاکہ حافظ حسین احمد کو جماعت میں اہم ذمہ داریاں دی جائے تاکہ بلوچستان میں مولانا محمد خان شیرانی کے مقابلے میں گرفت برقراررہے لیکن گذشتہ ماہ نومبر 2020میں پی ڈی ایم میں شامل اہم جماعت مسلم لیگ(ن)کے قائد محمد نوازشریف کے بیانئے مخالف حافظ حسین احمد کے بیانات سامنے آئے جس پر انہیں ایک بارپھر جمعیت علماء اسلام کے عہدے سے ہٹا دیاگیا ابھی حافظ حسین احمد اورمولانا فضل الرحمن کے درمیان پی ڈی ایم کے حوالے سے سرد جنگ چل ہی رہی تھی کہ مولانا محمد خان شیرانی والا متنازعہ بیان سامنے آ گیا اسطرح وہ تمام افراد جو کسی نا کسی حیثیت میں مولانا فضل الرحمن کی جماعتی سیاست کے متاثرین میں شامل ہیں وہ اکٹھے ہوگئے اورانہوں نے ملکر مولانا فضل الرحمن کی جماعتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ۔


جمعیت علماء اسلام (ف)کے قائدمولانا فضل الرحمن کو اپنی جماعت میں اس وقت مکمل گرفت حاصل ہے مرکزی اورچاروں صوبوں کی تنظیموں کے علاوہ مختلف ذیلی تنظیموں میں بھی مولانا فضل الرحمن کے ہم خیال افراد اہم عہدوں پر موجود ہیں اس لئے انہوں نے باآسانی اپنے مخالفین چاروں افراد کو ڈسپلنری کمیٹی کے ذریعے جماعت سے الگ کروادیا ۔
مولانا محمد خان شیرانی جمعیت علماء اسلام کے بانی رکن ہونے کی وجہ سے برحال بلوچستان کے علاوہ پورے پاکستان کے اندر جماعتی عہدیداروں میں اہم مقام رکھتے ہیں لیکن فی الحال وہ جمعیت علماء اسلام کو بڑا نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اسی طرح حافظ حسین احمد بھی بلوچستان میں جماعت کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچاسکتے اورجہاں تک مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک کا تعلق ہے وہ بھی خیبرپختونخواہ میں جمعیت علماء اسلام کو خاص نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے البتہ جسطرح مولانا عصمت اللہ کی سربراہی میں جمعیت علماء اسلام (نظریاتی )گروپ نے 2008میں عام انتخابات میں بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کے امیدواروں کو نقصان پہنچایاتھااسی طرح آئندہ انتخابات میں مولانا محمد خان شیرانی کی وجہ سے بھی بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام (ف)کو خاصا نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے ابھی چونکہ عام انتخابات کی کوئی امید نہیں ہے جس کیلئے دو اڑھائی سال کا وقت درکار ہے اسوقت تک جمعیت علماء اسلام کی بلوچستان میں کیسی پوزیشن رہتی ہے اسکا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوجائے گا ۔


مولانا محمد خان شیرانی اگر تیروں کا رخ صرف مولانا فضل الرحمن کی حد تک رکھتے تو شاید انہیں جمعیت علماء اسلام (ف)کے کچھ لوگ توڑکراپنے ساتھ ملانے میں کامیابی مل جاتی لیکن اسرائیل حمایت میں بیان سے انہوں نے اپنی پوزیشن جماعتی سطح پرمزیدخراب کرلی ہے اگر جماعت کے اندر کچھ افراد انہیں سپورٹ کرنے کی بھی خواہش رکھتے ہونگے وہ اب کھل کر انہیں سپورٹ نہیں کرسکیں گے مولانا محمد خان شیرانی پہلے بھی ایران لابی کا حصہ کہلاتے رہے جسکا یقینا مولانا فضل الرحمن نے ماضی میں سیاسی فائدہ بھی اٹھایا تھا لیکن آج بھی پنجاب ،سندھ اور خیبرپختونخواہ میں ایران کو ناپسندیگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس لئے ان تینوں صوبوں میں مولانا محمد خان شیرانی کواہمیت ملنا ممکن ہی نہیں ہے تاہم مولانا محمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمد کچھ عرصہ تک میڈیا میں اپنی جگہ ضروربنائے رکھیں گے جسکا نقصان برحال مولانا فضل الرحمن کو برداشت کرنا پڑے گا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :