دینی جماعتیں احتجاج نہیں اصلاح کریں
جمعہ 3 اگست 2018
(جاری ہے)
رواں انتخابات 2018کی بات کریں تو متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے مشترکہ امیدوار کھڑے کرکے قومی یکجہتی کا پیغام دیاتھاتاکہ دینی جماعتوں کا ووٹ تقسیم ہونے کی بجائے ایک جگہ پر اکٹھا ہوجائے اور دینی جماعتیں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر ایک بڑی قوت کے طور پر پارلیمنٹ میں پہنچیں لیکن بدقسمتی سے متحدہ مجلس عمل میں شامل مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان اور جمعیت علماء پاکستان (نورانی)کی قیادت متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کی بجائے مسلم لیگ(ن)کے امیدواروں کیلئے ووٹ مانگتی رہیں دونوں جماعتوں کے قائدین نے باقاعدہ پریس کانفرنسوں اور ویڈیو پیغامات کے ذریعے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایم ایم اے کی بجائے مسلم لیگ(ن)کے امیدواروں کوہی ووٹ دیں تاکہ مسلم لیگ(ن)کوواضح اکثریت دلواکر تحریک انصاف کوحکومت بنانے سے روکا جاسکے لیکن ان کی یہ خواہشات تو پوری نہ ہوسکی تاہم متحدہ مجلس عمل کومتوقع نشستوں پر بھی بری طرح ناکامی کا سامنا کرناپڑااور متحدہ مجلس عمل کے مرکزی صدر وجمعیت علماء اسلام (ف)کے قائد مولانا فضل الرحمن اورجماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کوبھی اپنی آبائی نشستوں سے محروم ہونا پڑا ۔
دینی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام (ف)اورجماعت اسلامی نے ہمیشہ دو صوبوں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں نشستیں حاصل کی ہے جبکہ سندھ اورپنجاب میں انکی محض معمولی نمائندگی رہی رواں انتخابات میں بھی ان دونوں جماعتوں نے صرف خیبرپختونخواہ اوربلوچستان میں ہی چند سیٹیں حاصل کی تھی ان میں سے جماعت اسلامی کوکچھ زیادہ ہی بری صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جن کی ذاتی نشستیں 2013کے انتخابات سے بھی کم ہوگئی ہیں اسکی ایک بڑی وجہ تو ملک بھرمیں تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ اوردوسری وجہ ایک نئی سیاسی ودینی جماعت تحریک لبیک پاکستان کا الگ حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینا بھی شامل ہے تحریک لبیک پاکستان نے پہلی بارملک بھرمیں بڑی تعداد میں اپنے امیدوار وں کو کھڑا کیاتھا جوکہ سندھ اسمبلی میں دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہی جبکہ دوسرے حلقوں میں اس جماعت کے امیدواروں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کو بھی نقصان پہنچایاکئی حلقوں میں توتحریک لبیک پاکستان نے دوسری اورتیسری پوزیشن حاصل کی ہے اسی طرح اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم پر جماعت الدعوة کی ملی مسلم لیگ کے امیدواروں نے بھی ملک بھر میں دینی جماعتوں کے ووٹ کو تقسیم کیاجمعیت علماء اسلام (س)نے خیبرپختونخواہ اورجمعیت علماء اسلام (نظریاتی)نے بھی بلوچستان میں اپنے امیدواروں کو کھڑاکیاتھا جوکوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔
اب جب انتخابات ہوگئے ہیں اور دینی جماعتوں کو عوام نے جمہوریت کے نام پرمسترد کردیا ایسی صورتحال میں متحدہ مجلس عمل کے مرکزی صدر مولانا فضل الرحمن نے پہلے توحلف نہ اٹھانے کااعلان کیا لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کے انکار کے بعد مولانا فضل الرحمن نے مجبوراََایم ایم اے کے کامیاب اراکین اسمبلی کو حلف اٹھانے کی اجازت دیناپڑی اورساتھ ہی الیکشن میں دھاندلی کے الزام پرپارلیمنٹ کے اندر اورباہر بھرپوراحتجاج کا اعلان بھی کردیالیکن دوسری طرف متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے اوران کی حکومت کوکام کرنے دینے کا فیصلہ کیا ہے اس فیصلے کے بعد اب اکیلے مولانا فضل الرحمن کا ایوان کے باہر احتجاجی تحریک چلاناشاید ممکن نہ ہوگا ۔
ایسی صورتحال پر دینی جماعتوں اور مدارس سے وابستہ قیادت کو کسی احتجاجی کال پر لبیک کہنے کی بجائے دوراندیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقبل کے حوالے سے حکمت عملی اپنانا ہوگی جماعت اسلامی پانچ سال خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ رہی اسی طرح جمعیت علماء اسلام (ف)بھی وزارتیں لیکرپانچ سال مسلم لیگ (ن)کی وفاقی حکومت کا حصہ رہی اس کے باوجودعوام نے انہیں مسترد کیوں کیا؟ کیا جمعیت علماء اسلام (ف)کی وفاقی حکومت میں موجودگی کے باوجود متنازعہ قوانین کی منظوری ان کی شکست کی وجہ تو نہیں بنی ؟اس سوال کا جواب بھی انہیں تلاش کرنا چاہیے؟اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے اپنے ووٹرز کوابھی سے اعتماد میں لینا چاہیے۔
جسطرح جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے اس خواہش کااظہار کیا ہے کہ عمران خان انتخابات سے قبل اور انتخاب جیتنے کے بعد قوم سے کئے گئے وعدوں کو پوراکریں گے اسی طرح دینی مدارس کی قیادت کو بھی تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں جذبہ خیرسگالی کاپیغام دینا چاہیے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ پارلیمنٹ میں علماء کرام کی انتہائی کمی ہوگی اور پارلیمنٹ کے باہر بھی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کسی دینی جماعت کا اتحاد بھی نہیں ہے ایسی صورتحال میں خدشہ ہے کہ ملکی وغیرملکی این جی اوز اور سیکولر ریاستیں اپنے مفادات کیلئے وزیراعظم عمران خان پرقانون سازی کیلئے دباوٴ ڈالیں گی اس لئے جید علماء کرام کو آگے بڑھ کر اس خلاء کو پوراکرنا چاہیے اورکسی مخصوص جماعت کے مفاداتی ایجنڈے کے تحت عمران خان کو کمزور وزیراعظم بنانے کی بجائے ان کے ساتھ کھڑاہونا چاہیے تاکہ وہ بیرونی طاقتوں کے پریشر میں آکرآئین پاکستان میں بچ جانیوالی اسلامی قوانین اورمدارس کے خلاف کوئی ایسی پالیسیاں ترتیب نہ دے سکیں جس سے اسلامی نظریات کوٹھیس پہنچے جمعیت علماء اسلام (س)کے قائد مولانا سمیع الحق کی کئی مواقع پر تحریک انصاف کو سپورٹ حاصل رہی ہے اگر مولانا سمیع الحق کی قیادت میں ملک بھر کے جید علماء کرام کاوفد مستقبل کے وزیراعظم عمران خان کوقومی اوربین الاقوامی امور پر تعاون کا یقین دلائیں توآنے والی دور میں ہونیوالی قانون سازی کے حوالے سے مشاورتی ٹیم تشکیل دی جاسکتی ہے اس کے علاوہ اسی علماء کرام کی ٹیم کوعمران خان کے پاکستان میں ریاست مدینہ طرزکی فلاحی ریاست ،انصاف ،قانون کی بالادستی ،میرٹ اورسادگی سمیت وہ تمام وعدے یاد دلواتے رہنا چاہیے جنکا اظہاروہ اپنی تقاریر میں کرتے رہتے تھے انہیں غیرملکی ایماء پر مدارس کے خلاف متنازعہ قوانین اور مدارس کی مشکلات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے تاکہ اس کے ازالے کیلئے بھی پیش رفت ممکن ہوسکے ہماری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر قسم کی سازش سے محفوظ رکھے :آمین ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید فرزند علی کے کالمز
-
جمعیت علماء اسلام کے باغی
منگل 29 دسمبر 2020
-
دینی جماعتیں احتجاج نہیں اصلاح کریں
جمعہ 3 اگست 2018
-
پاکستانی قوم کو نیاوزیر اعظم عمران خان مبارک ہو
جمعہ 27 جولائی 2018
-
مجھے ہے حکم اذاں
جمعہ 25 مئی 2018
-
حکومتی آپریشن میں دوہرا معیار
پیر 29 دسمبر 2014
-
حکمرانوں کے کرتوت اور مگرمچھ کے آنسو
منگل 16 ستمبر 2014
-
پاکستان بھارت مذاکرات کی منسوخی
جمعرات 21 اگست 2014
-
اقلیتوں کے حقوق اورمذہبی رواداری
جمعہ 4 جولائی 2014
سید فرزند علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.