دینی جماعتیں احتجاج نہیں اصلاح کریں

جمعہ 3 اگست 2018

Syed Farzand Ali

سید فرزند علی

انتخابات 2018میں پاکستان تحریک انصاف ملک کی بڑی سیاسی پارٹی بن کرسامنے آئی ہے اورواضح امکان ہے کہ وہ وفاق سمیت خیبرپختونخواہ، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے رواں الیکشن میں متحدہ مجلس عمل سمیت دینی جماعتوں کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی الیکشن کمیشن کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق اسوقت تک قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کی 13خیبرپختونخواہ اسمبلی میں 10 بلوچستان اسمبلی میں 9سندھ اسمبلی میں ایک اور پنجاب اسمبلی میں کوئی نشست نہ ہے اس سے قبل 2013کے انتخابات میں جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی پاکستان کی حاصل کردہ نشستوں کوملاکر قومی اسمبلی کی 13نشستیں بنی تھی اسی طرح خیبرپختونخواہ اسمبلی میں جے یوآئی کی 13بلوچستان اسمبلی میں 6جبکہ جماعت اسلامی نے خیبرپختونخواہ اسمبلی میں 7اورپنجاب اسمبلی میں ایک نشست حاصل کی تھی جہاں تک متحدہ مجلس عمل میں شامل مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان اور جمعیت علماء پاکستان (نورانی)کا تعلق ہے انکی حیثیت مسلم لیگ(ن)کی ذیلی تنظیم سے کچھ زیادہ نہ تھی کیونکہ ان دونوں جماعتوں کے مرکزی وصوبائی عہدیداران ہمیشہ ذاتی انتخابی نشان کی بجائے مسلم لیگ(ن)کے انتخابی نشان (شیر)پر پارلیمنٹ میں پہنچتے تھے جسکی وجہ سے پارلیمنٹ میں ان کی شناخت دینی جماعت کی بجائے مسلم لیگ(ن)کے رکن کے طورپر ہوتی تھی ۔

(جاری ہے)


 رواں انتخابات 2018کی بات کریں تو متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے مشترکہ امیدوار کھڑے کرکے قومی یکجہتی کا پیغام دیاتھاتاکہ دینی جماعتوں کا ووٹ تقسیم ہونے کی بجائے ایک جگہ پر اکٹھا ہوجائے اور دینی جماعتیں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر ایک بڑی قوت کے طور پر پارلیمنٹ میں پہنچیں لیکن بدقسمتی سے متحدہ مجلس عمل میں شامل مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان اور جمعیت علماء پاکستان (نورانی)کی قیادت متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کی بجائے مسلم لیگ(ن)کے امیدواروں کیلئے ووٹ مانگتی رہیں دونوں جماعتوں کے قائدین نے باقاعدہ پریس کانفرنسوں اور ویڈیو پیغامات کے ذریعے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایم ایم اے کی بجائے مسلم لیگ(ن)کے امیدواروں کوہی ووٹ دیں تاکہ مسلم لیگ(ن)کوواضح اکثریت دلواکر تحریک انصاف کوحکومت بنانے سے روکا جاسکے لیکن ان کی یہ خواہشات تو پوری نہ ہوسکی تاہم متحدہ مجلس عمل کومتوقع نشستوں پر بھی بری طرح ناکامی کا سامنا کرناپڑااور متحدہ مجلس عمل کے مرکزی صدر وجمعیت علماء اسلام (ف)کے قائد مولانا فضل الرحمن اورجماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کوبھی اپنی آبائی نشستوں سے محروم ہونا پڑا ۔


دینی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام (ف)اورجماعت اسلامی نے ہمیشہ دو صوبوں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں نشستیں حاصل کی ہے جبکہ سندھ اورپنجاب میں انکی محض معمولی نمائندگی رہی رواں انتخابات میں بھی ان دونوں جماعتوں نے صرف خیبرپختونخواہ اوربلوچستان میں ہی چند سیٹیں حاصل کی تھی ان میں سے جماعت اسلامی کوکچھ زیادہ ہی بری صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جن کی ذاتی نشستیں 2013کے انتخابات سے بھی کم ہوگئی ہیں اسکی ایک بڑی وجہ تو ملک بھرمیں تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ اوردوسری وجہ ایک نئی سیاسی ودینی جماعت تحریک لبیک پاکستان کا الگ حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینا بھی شامل ہے تحریک لبیک پاکستان نے پہلی بارملک بھرمیں بڑی تعداد میں اپنے امیدوار وں کو کھڑا کیاتھا جوکہ سندھ اسمبلی میں دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہی جبکہ دوسرے حلقوں میں اس جماعت کے امیدواروں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کو بھی نقصان پہنچایاکئی حلقوں میں توتحریک لبیک پاکستان نے دوسری اورتیسری پوزیشن حاصل کی ہے اسی طرح اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم پر جماعت الدعوة کی ملی مسلم لیگ کے امیدواروں نے بھی ملک بھر میں دینی جماعتوں کے ووٹ کو تقسیم کیاجمعیت علماء اسلام (س)نے خیبرپختونخواہ اورجمعیت علماء اسلام (نظریاتی)نے بھی بلوچستان میں اپنے امیدواروں کو کھڑاکیاتھا جوکوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔


اب جب انتخابات ہوگئے ہیں اور دینی جماعتوں کو عوام نے جمہوریت کے نام پرمسترد کردیا ایسی صورتحال میں متحدہ مجلس عمل کے مرکزی صدر مولانا فضل الرحمن نے پہلے توحلف نہ اٹھانے کااعلان کیا لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کے انکار کے بعد مولانا فضل الرحمن نے مجبوراََایم ایم اے کے کامیاب اراکین اسمبلی کو حلف اٹھانے کی اجازت دیناپڑی اورساتھ ہی الیکشن میں دھاندلی کے الزام پرپارلیمنٹ کے اندر اورباہر بھرپوراحتجاج کا اعلان بھی کردیالیکن دوسری طرف متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے اوران کی حکومت کوکام کرنے دینے کا فیصلہ کیا ہے اس فیصلے کے بعد اب اکیلے مولانا فضل الرحمن کا ایوان کے باہر احتجاجی تحریک چلاناشاید ممکن نہ ہوگا ۔


ایسی صورتحال پر دینی جماعتوں اور مدارس سے وابستہ قیادت کو کسی احتجاجی کال پر لبیک کہنے کی بجائے دوراندیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقبل کے حوالے سے حکمت عملی اپنانا ہوگی جماعت اسلامی پانچ سال خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ رہی اسی طرح جمعیت علماء اسلام (ف)بھی وزارتیں لیکرپانچ سال مسلم لیگ (ن)کی وفاقی حکومت کا حصہ رہی اس کے باوجودعوام نے انہیں مسترد کیوں کیا؟ کیا جمعیت علماء اسلام (ف)کی وفاقی حکومت میں موجودگی کے باوجود متنازعہ قوانین کی منظوری ان کی شکست کی وجہ تو نہیں بنی ؟اس سوال کا جواب بھی انہیں تلاش کرنا چاہیے؟اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے اپنے ووٹرز کوابھی سے اعتماد میں لینا چاہیے۔


جسطرح جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے اس خواہش کااظہار کیا ہے کہ عمران خان انتخابات سے قبل اور انتخاب جیتنے کے بعد قوم سے کئے گئے وعدوں کو پوراکریں گے اسی طرح دینی مدارس کی قیادت کو بھی تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں جذبہ خیرسگالی کاپیغام دینا چاہیے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ پارلیمنٹ میں علماء کرام کی انتہائی کمی ہوگی اور پارلیمنٹ کے باہر بھی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کسی دینی جماعت کا اتحاد بھی نہیں ہے ایسی صورتحال میں خدشہ ہے کہ ملکی وغیرملکی این جی اوز اور سیکولر ریاستیں اپنے مفادات کیلئے وزیراعظم عمران خان پرقانون سازی کیلئے دباوٴ ڈالیں گی اس لئے جید علماء کرام کو آگے بڑھ کر اس خلاء کو پوراکرنا چاہیے اورکسی مخصوص جماعت کے مفاداتی ایجنڈے کے تحت عمران خان کو کمزور وزیراعظم بنانے کی بجائے ان کے ساتھ کھڑاہونا چاہیے تاکہ وہ بیرونی طاقتوں کے پریشر میں آکرآئین پاکستان میں بچ جانیوالی اسلامی قوانین اورمدارس کے خلاف کوئی ایسی پالیسیاں ترتیب نہ دے سکیں جس سے اسلامی نظریات کوٹھیس پہنچے جمعیت علماء اسلام (س)کے قائد مولانا سمیع الحق کی کئی مواقع پر تحریک انصاف کو سپورٹ حاصل رہی ہے اگر مولانا سمیع الحق کی قیادت میں ملک بھر کے جید علماء کرام کاوفد مستقبل کے وزیراعظم عمران خان کوقومی اوربین الاقوامی امور پر تعاون کا یقین دلائیں توآنے والی دور میں ہونیوالی قانون سازی کے حوالے سے مشاورتی ٹیم تشکیل دی جاسکتی ہے اس کے علاوہ اسی علماء کرام کی ٹیم کوعمران خان کے پاکستان میں ریاست مدینہ طرزکی فلاحی ریاست ،انصاف ،قانون کی بالادستی ،میرٹ اورسادگی سمیت وہ تمام وعدے یاد دلواتے رہنا چاہیے جنکا اظہاروہ اپنی تقاریر میں کرتے رہتے تھے انہیں غیرملکی ایماء پر مدارس کے خلاف متنازعہ قوانین اور مدارس کی مشکلات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے تاکہ اس کے ازالے کیلئے بھی پیش رفت ممکن ہوسکے ہماری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر قسم کی سازش سے محفوظ رکھے :آمین ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :