آئین آسمانی صحیفہ نہیں ہوتا

بدھ 6 فروری 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

آج سے ساڑھے چار ہزار برس پہلے کا زمانہ تھا جب موجودہ عراق کے علاقے میں لاگاش کے سمیری بادشاہ یوروکجینا نے اپنی حکومت کے لیے ایک قانونی دستاویز تیار کی۔ اسے دنیا کا پہلا آئین مانا جاتا ہے۔ اس آئین کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی ذمہ داری ریاست کو سونپی گئی تھی۔ نیز غریب لوگوں کو مالدار سودخوروں سے تحفظ بھی فراہم کیا گیا تھا۔

اُس وقت سے لے کر اب تک دنیا بھر میں ہر طرح کے آئین بنتے، بگڑتے اور چلتے آرہے ہیں۔ اِن میں امریکہ کا آئین دنیا کا سب سے پرانا مکمل تحریری آئین ہے۔ دنیا کا سب سے ضخیم آئین ہندوستان اور سب سے مختصر آئین فرانس کے ہمسائے مناکو کا ہے جبکہ برطانیہ کا آئین غیرتحریر شدہ ہے۔ پاکستان کے قیام سے چار روز قبل ہی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 11اگست 1947ء کو اپنے اہم ترین رفقاء اور قائدین کے ذمے جو کام لگایا وہ نئے ملک پاکستان کے لیے آئین سازی ہی تھی۔

(جاری ہے)

یہ بدقسمتی تھی کہ وہ آئین ساز اسمبلی بانی پاکستان کی زندگی میں کوئی آئینی خاکہ اُن سے منظور نہ کراسکی۔ آئینی بدقسمتی کا یہ سلسلہ جناح کی موت کے بعد بھی جاری رہا۔ آئین ریاست کو چلانے کے لیے اُس ملک کے حالات، ثقافت اور زمینی حقائق کے پس منظر میں تیار کیے جانے والے قوانین کا نام ہوتا ہے۔ پاکستان میں آئین سازی کے حوالے سے جو تجربات کیے گئے اُنہیں اس سادہ سی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر ایک نوزائیدہ بچے کی مستقبل کی صحت کے لیے دائیاں، ڈسپنسر، حکیم، سنیاسی بابے، نقلی پیر اور ڈاکٹر وغیرہ سب اپنی اپنی علم ودانش کے مطابق ہدایات دے رہے ہوں اور ان سب کا دعویٰ ہوکہ صرف اُنہی کی دوائی یا ٹوٹکہ بچے کی مستقبل کی صحت کا ضامن ہوگا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مختلف قسم کی دوائیوں اور ٹوٹکوں کے سائڈایفکٹ سے معصوم بچے کو وہ جسمانی اور نفسیاتی جان لیوا بیماریاں بھی لگ سکتی ہیں جو اِن دوائیوں کے نہ کھانے سے ہرگز نہ لگتیں۔

پاکستان کے ابتدائی 26 برسوں میں آئین سازی کی جوبھی کوشش ہوئی اُسے ذاتی پسند کے نظریات کی چھاپ یا مارشل لاء ڈکٹیٹر کی ناجائز اولاد سمجھا گیا۔ اُس وقت کے بین الاقوامی منصوبہ سازوں نے پاکستان کے کندھے کو کیمونزم اور سوشلزم کے خاتمے کے طور پر استعمال کرنا تھا اس لیے انہوں نے انگریزوں سے خاندانی تعلق رکھنے والے مغربی تعلیم یافتہ نوجوان وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں پسے ہوئے عوام کے سامنے طبقاتی کشمکش ختم کرنے والے سوشلسٹ لیڈر کے طور پر پیش کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ابتدائی تقریروں میں بارہا کہا کہ وہ پاکستان میں سوشلزم کا انقلاب لائیں گے جس سے غریب اور امیر کا فرق ختم ہو جائے گا۔ تحقیق کرنے سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ لگاکر سوشلزم کی پشت میں خنجر گھونپ دیا کیونکہ اس نعرے سے وہ خود اور ان کی جماعت تو مقبول ہوگئی لیکن طبقاتی فرق ختم کرنے والی کوئی دیرپا تبدیلی نہ آئی۔

اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو سوشلزم کا نعرہ نہ لگاتے تو پاکستان میں خودبخود ایسا انقلاب ضرور آجاتا جو لوگوں کو معاشرتی مساوی حقوق کی طرف لے جاتا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہی اپنی حکومت کے دور میں 1973ء کا آئین منظور کروایا جو اَب تک پاکستان میں نافذ ہے۔ اس آئین کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جماعت پیپلز پارٹی نے ویسے ہی افسانوی کہانیاں پھیلا رکھی ہیں جیسی انہوں نے اپنے آپ کو ایک سوشلسٹ انقلابی ثابت کرنے کے لیے پھیلا رکھی تھیں۔

سب سے پہلی بات یہ کہ 1973ء کا آئین متفقہ نہیں ہے۔ اب یہ بات مکمل ریکارڈ یافتہ ہے کہ اُس وقت کے بہاولپور، بلوچستان، سندھ، سرحد اور پنجاب وغیرہ کے بعض اراکین اسمبلی نے آئین پر دستخط نہیں کیے۔ چونکہ ذوالفقار علی بھٹو سیاست میں ایشوز کو ڈرامائی اور گلیمرائز کرنے کے ماہر تھے اس لیے انہوں نے 1973ء کے آئین کو متفقہ کہا۔ حالانکہ اگر وہ اس آئین کو کثرت رائے سے منظور ہونے والا آئین کہتے تب بھی کیا حرج تھا کیونکہ اکثریتی ووٹوں کے باعث منظور ہوکر نافذ تو اِسی آئین نے ہی ہونا تھا۔

اس آئین کو مقدس بنانے کے لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس وقت کے تمام بڑے سیاسی لیڈروں نے سرتسلیم خم کر دیے تھے۔ اگر ایسا تھا تو اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ تمام سیاسی رہنما دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اُس وقت کے شکست خوردہ پاکستان کو خود اعتمادی دے کر آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ اسی لیے بہت کم اور ناکافی پر بھی راضی ہوگئے۔ دوسرا یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے پیچھے چھپے ہوئے ضدی ڈکٹیٹر سے شاید سب خوف زدہ تھے۔

جی ہاں وہی صدر ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے پاکستانی فوج کے اُس وقت کے سربراہ جنرل گل حسن کو روالپنڈی سے لاہور لے جانے کے بہانے غلام مصطفی کھر کے ذریعے اغوا کروایا اور راستے میں غلام مصطفی جتوئی نے گن پوائنٹ پر اُن سے استعفیٰ لے لیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اُس وقت کے تمام بڑے سیاسی رہنماؤں نے 19 اپریل 1973ء کو آئین کی توثیق میں ذوالفقار علی بھٹو کا دل سے ساتھ دیا تھا تو اِس کے تقریباً ساڑھے تین سال بعد مارچ 1977ء میں انہوں نے بھٹو کے خلاف تحریک کیوں چلائی؟ اگر وہ سیاسی لیڈر 1977ء میں بھٹو کے خلاف کسی سازش میں شامل ہوگئے تھے توکیا اتنے کمزور سیاسی لیڈر آئین کی منظوری کے وقت بھٹو کے ساتھ سازش میں شامل نہیں ہوسکتے تھے؟ جیسا کہ بتایا گیا کہ دنیا کا سب سے پہلا آئین فلاح وبہبو د کے حوالے سے تھا اور آئین کامقصد بھی شاید یہی ہوتا ہے لیکن 1973ء کا آئین عوام کی فلاح وبہبود سے زیادہ صرف طرز حکمرانی پر مبنی ہے اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ آئین پاکستان کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔

موجودہ آئین قائم رکھنے کا مطالبہ صرف پیپلز پارٹی کی انا ہے کیونکہ یہی اُن کی بقا کا سلسلہ ہے جبکہ شاید تمام دوسری جماعتیں اگر کھلے عام نہیں تو دل میں اس آئین سے سبق سیکھ کر اس کی جگہ نئے تقاضوں کو پورا کرنے والا آئین چاہتی ہیں۔ آئین کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہوتا کہ اس میں ردوبدل نہ کیا جاسکے یا اس کی جگہ کوئی نیا آئین نہ لایا جاسکے۔

جو یہ کہتے ہیں کہ اگر اس آئین کی جگہ کوئی دوسرا آئین لایا گیا تو ملک میں بہت فساد ہوگا، اُن سے کوئی یہ پوچھے کہ اس آئین کی منظوری سے اب تک جتنے فساد ہوچکے ہیں کیا وہ کم ہیں؟ اور اگر ہمارے موجودہ سیاسی رہنما اکیسویں ترمیم پر متفقہ دستخط کرسکتے ہیں تو اُنہی اشاروں کے سائے تلے وہ نیا آئین بھی منظور کرسکتے ہیں۔ بیشک وہ بعد میں آنسو بہاتے رہیں جیسا کہ سینیٹر رضا ربانی نے اکیسویں ترمیم پر دستخط کرنے کے بعد اپنی مجبوری آنسو بہاکر ظاہر کی تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :