اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے، اب کیسے پار اترنا ہے

جمعرات 14 فروری 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

تھوڑے عرصے پہلے کی ریل گاڑی کے سفر کا منظر ذہن میں لاتے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ ریل کسی چھوٹے قصبے کے سٹیشن پر رک جاتی۔ کچھ مسافر ریل گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم پر چہل قدمی شروع کردیتے۔ اِکا دُکا خوانچے والے آوازیں لگا کر اپنی چیزیں فروخت کرنے کی کوشش کرتے۔ پکوڑے والے کے مٹی کے تیل کے چولہے کا دھواں پکوڑوں کی خوشبو سے زیادہ پھیل جاتا۔

ریل کے سٹارٹ انجن کا شور مسلسل جاری رہتا۔ ریل کے ڈبوں کے اندر بچوں کی دھماچوکڑی کچھ کے لئے رونق اور کچھ کے لئے زحمت کا باعث ہوتی۔ خواتین قریب بیٹھی خواتین سے راہ و رسم بڑھانے لگتیں۔ گرمیوں کا موسم ہوتا تو کچھ لوگ اخبار یا ہاتھ کے پنکھوں سے اپنے منہ پر ہوا مارنے لگتے۔ یہ ماحول کچھ دیر برقرار رہتا پھر اِس میں اِس طرح تبدیلی آتی کہ پلیٹ فارم پر ٹہلتے مسافر واپس ریل گاڑی کے اندر آنے لگتے۔

(جاری ہے)

 
کچھ شرارتی بچے دروازوں سے پلیٹ فارم پر اتر جاتے اور کھڑکی کے ساتھ بیٹھی اپنی ماؤں بہنوں کو آوازیں دیتے اور اُن سے ڈانٹ پڑنے پر دوبارہ ریل گاڑی کے اندر آجاتے۔ مسلسل آنے والی خوانچہ فروشوں کی آوازیں اب وقفے وقفے سے آنے لگتیں۔ پکوڑے والے کے چولہے کے تیل کا دھواں ٹھنڈا ہوکر اپنی بو کھو دیتا۔ اِس سب کے بعد بھی ریل وہیں کھڑی رہتی اور سٹارٹ انجن کا شور مسلسل آتا رہتا۔

پھر مسافروں میں گاڑی کے رکے رہنے کی وجوہات پر گفتگو شروع ہو جاتی۔ کوئی کہتا دوسری گاڑی کا کراس ہے، کوئی بولتا گاڑی کا انجن تبدیل ہوگا، بعض کے خیال میں گاڑی کے نہ چلنے کی وجہ کسی وی آئی پی مسافر کا انتظار ہوتا۔ غرض یہ کہ جتنے منہ اُتنی باتیں۔ 
ریل گاڑی کے رکے رہنے اور اُس کے نہ چلنے کی وجوہات کا معلوم نہ ہونا مسافروں میں اضطرابی کیفیت پیدا کرنا شروع کردیتا لیکن ابھی مسافروں کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہوا ہوتا۔

اسی لئے کچھ سنجیدہ مسافر دوبارہ پلیٹ فارم پر نکل آتے اور ٹی سٹال یا بُک سٹال کی طرف چلے جاتے۔ کچھ بزرگ سٹیشن کے نل سے وضو کرنے لگتے۔ بھاگتے دوڑتے بچے ایک جگہ کھڑے ہو جاتے اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے۔ خواتین کی آوازوں میں بھی بیزاری سی محسوس ہونے لگتی۔ یعنی اِن مسافروں کا جوش و خروش بوریت میں تبدیل ہونے لگتا اور اِس سٹیشن پر ریل کے رکنے کے بعد مسافروں نے جو دیہاتی سٹیشن سے لطف اندوز ہونا شروع کیا تھا وہ آہستہ آہستہ اکتاہٹ میں بدلنے لگتا۔

 
گویا ریل کا انجن سٹارٹ ہو، عملہ موجود ہو، مسافر بیٹھے ہوں اور ریل ایک ہی جگہ پر دیر تک رکی رہے تو لوگوں میں بے چینی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے کیونکہ آگے بڑھنے کا عمل رکا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو آئے چھ ماہ ہوگئے۔ اُن کے سفر کے آغاز کے موقع پر انہی کے ووٹروں میں جو جوش و خروش تھا وہ اب کسی دیہاتی سٹیشن پر دیر تک رکی رہنے والی ریل کی طرح کم ہوتا جارہا ہے۔

وہ ووٹر جو پی ٹی آئی کے لئے چیخ چیخ کر بولتے تھے اب دھیمی آواز میں کہتے ہیں کہ تبدیلی میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ اُن کا اونچی آواز سے کم آواز کی طرف آجانا پی ٹی آئی سے کچھ قدم دور ہو جانا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے حکومتی سفر کا آغاز جن نعروں سے کیا تھا وہ نعرے دیہاتی سٹیشن پر رکی ریل کے سٹارٹ انجن کی طرح شور تو کررہے ہیں لیکن انجن ریل کو لے کر آگے نہیں بڑھ رہا۔

انتخابات سے پہلے کی وہ پی ٹی آئی جو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر خودکشی کو ترجیح دیتی تھی، آج اُسی پارٹی کے وزیراعظم عمران خان آئی ایم ایف کے سربراہ سے ملنے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ پرانے پاکستانی جو امریکہ اور عرب ممالک کی پالیسیوں کی فرمانبرداری سے بیزار تھے، وہ تحریک انصاف کے ہاتھوں اِن ممالک کی خوشامد دیکھ کر پھر سے سناٹے میں ہیں۔

وہ تحریک انصاف جو انتخابی مہم میں حکومت میں آنے کے بعد چند دنوں کے اندر لوٹی ہوئی کھربوں ڈالر کی رقم واپس لانے کا دعویٰ کررہی تھی، چھ ماہ میں ایک روپیہ بھی واپس نہیں لاسکی۔ وہ تحریک انصاف جو ملک کو شیشے کا محل بنانے کا دعویٰ کررہی تھی، ٹوٹ جانے والی سڑکوں کی مرمت کے لئے چند ہزار روپے بھی نہیں نکال سکتی۔ وہ پارٹی جو حکومت میں آنے کے بعد کرپشن کے تمام دروازے ہمیشہ کے لئے بند کرنے کی قسم کھاتی تھی، کرپشن کے خلاف اب تک کوئی موثر قانون سازی بھی نہ کرسکی۔

اِن حقائق کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا تحریک انصاف کو صرف مہمانِ خصوصی کی کرسی پر ہی بیٹھنا تھا؟ انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ایک ہی جگہ رکی ہوئی ریل کے مسافر آہستہ آہستہ بیزار ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر فساد کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ سٹارٹ انجن کا شور مسافروں کو مطمئن نہیں کرسکتا جب تک ریل آگے نہ بڑھے۔ فیض احمد فیض نے لکھا تھا :
جب دکھ کی ندیا میں ہم نے، جیون کی ناؤ ڈالی تھی ،
تھا کتنا کس بل بانہوں میں، لوہو میں کتنی لالی تھی ،
یوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے، اور ناؤ پورم پار لگی ،
ایسا نہ ہوا، ہر دھارے میں کچھ ان دیکھی منجدھاریں تھیں ،
کچھ مانجھی تھے انجان بہت، کچھ بے پرکھی پتواریں تھیں ،
اب جو بھی چاہو چھان کرو، اب جتنے چاہو دوش دھرو ،
ندیا تو وہی ہے ناؤ وہی، اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے ،
اب کیسے پار اترنا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :