پی ٹی آئی بھی پیپلز پارٹی کے دیومالائی ڈراوے میں

جمعہ 19 اپریل 2019

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

حضرت عیسیٰ  کی پیدائش سے تقریباً دوہزار برس پہلے قدیم یونان کی روزمرہ زندگی میں دیوتاؤں اور دیویوں کا تصور بہت عام تھا۔ اِن دیوتاؤں اور دیویوں کے آغاز کی حقیقت کوئی نہیں جانتا تھا لیکن زبانی قصے کہانیوں اور زبانی لٹریری نظموں کے ذریعے سینکڑوں برس کا سفر کرنے کے بعد ان کے تصور سے پرانے یونان کا ہر باشندہ اچھی طرح واقف تھا۔

یہاں تک کہ آٹھ سو برس قبل مسیح میں دنیا کے مبینہ پہلے شاعر ”ہومر“ نے بھی ”ٹروجن وار“ کے پس منظر میں لکھی جانے والی اپنی مشہور نظم ”اِلی آڈ“ میں انہی دیوتاؤں اور دیویوں کو تعارف کرائے بغیر کرداروں کی صورت میں پیش کیا۔ ہومر نے دیوتا یا دیوی کا نام ہی لکھ دینا اس لئے کافی سمجھا کیونکہ اُس کے خیال میں اُن دیوتاؤں اور دیویوں کے پس منظر کے بارے میں تمام لوگ بخوبی جانتے تھے۔

(جاری ہے)

اِن یونانی دیوتاؤں اور دیویوں کی مشہوری کے اثرات اب بھی مغرب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً یونان کی ایک دیومالائی روایت میں خواتین کا ایمیزون نامی ایک جنگجو قبیلہ موجود تھا۔ آج کل ایمیزون کے نام سے بہت ہی مشہور ای کاروباری ادارہ موجود ہے۔ اسی طرح ٹروجن وار قدیم یونان کی ایک اہم دیومالائی کہانی تھی۔ آج کل ٹروجن کے نام سے خطرناک کمپیوٹر وائرس عام ہے۔

پرانے یونان کی ان روایات کو ہماری سیاست میں بھی کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنایا ہے۔حقیقت کچھ بھی ہو لیکن یہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی شخصیات اور سیاسی کلچر کو دیومالائی کہانیوں کی طرح ہی پیش کرتی ہیں۔ اِن جماعتوں میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی نمایاں رہی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اے این پی کے لیے خدائی خدمتگار، سرخ پوش اور باچا خان جیسے دیومالائی نعرے مدھم پڑگئے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی بھٹو فیملی کی قربانیوں کی مشہوری، سندھ کی مظلومیت اور جمہوریت کے نام پر حکمرانی جیسے دیومالائی نعروں کو اب بھی اچھی طرح مارکیٹ کررہی ہے۔

اس کے لیے وہ اپنی اِن پراڈکٹس کے حق میں پراپیگنڈہ،شور شرابہ اور ڈراوے جیسے ٹولز استعمال کرتی ہے۔ مثلاً سندھ کے لوگوں کی مظلومیت کے نام پر حکومت حاصل کرنا اور وفاق سے فنڈز حاصل کرنا پیپلز پارٹی کا پرانا طریقہ کار ہے۔ اس معاملے پر اگر ہم غور کریں تو پیپلز پارٹی نے ہی سندھ پر عموماً حکومت کی ہے لیکن سندھ کی مظلومیت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔

مزید یہ کہ سندھ کے نام پر وفاق سے حاصل کیے جانے والے فنڈز کا استعمال بھی اندرونِ سندھ کہیں نظر نہیں آتا۔ سندھ کی تقسیم کے نام پر پیپلز پارٹی کٹ مرنے کا ڈراوا دیتی ہے لیکن متضاد روےئے کی شکل میں پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی حامی ہے۔ ایم کیو ایم کی طرف سے شہری اور دیہی سندھ کے کوٹہ سسٹم پر اعتراضات کے جواب میں پیپلز پارٹی دلائل کی بجائے خطرناک ہوجاتی ہے۔

اس کی حالیہ مثال ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کے تازہ بیان پر پیپلز پارٹی کا شدید غصے والا ردعمل ہے۔ دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی گزشتہ کئی دہائیوں سے اندرونِ سندھ کی مظلومیت کے نام پر حکومت کررہی ہے لیکن سندھ کی قوم پرست جماعتیں، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت اِسے عملی چیلنج نہیں کرتی کہ اندرونِ سندھ کی مظلومیت کی ذمہ دار خود پیپلز پارٹی ہے۔

کیا یہ سب جماعتیں پیپلز پارٹی کی دیومالائی روایات کے ڈراوے میں آچکی ہیں؟ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام حکومتی خزانے سے غریب عوام کو دی جانے والی امدادی رقم کا نام ہے۔ ایسے فلاحی فنڈ مختلف ناموں کے ساتھ پہلے سے موجود تھے لیکن اس سرکاری مالی امدادی پروگرام کا نام بینظیر انکم سپورٹ پروگرام رکھ کر پیپلز پارٹی نے مستقل سیاسی مشہوری کا بندوبست کرلیا۔

گزشتہ دنوں جب اس سرکاری فنڈ کے ذریعے پیپلز پارٹی کی ذاتی سیاسی مشہوری کو روکنے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کی بات کی گئی تو پیپلز پارٹی نے شدید ردعمل دیا۔ عملی طور پر پیپلز پارٹی خواہ کچھ بھی نہ کرسکتی لیکن وہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ڈرانے میں کامیاب ہوگئی کہ اگر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کیا گیا تو حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔

شاید اسی ڈراوے میں آکر پی ٹی آئی نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کی مہم ختم کردی۔ اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے بھی پیپلز پارٹی اپنا تن من دھن داؤ پر لگانے کی بات کرتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم ملک یا جمہوریت کے حق میں کتنی بہتر ہے یہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن پیپلز پارٹی کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس طرح ان کا سندھ کے اداروں، سندھ کے مالی وسائل اور سندھ کی بیوروکریسی پر براہِ راست کنٹرول رہے گا۔

پیپلز پارٹی کے ڈراوے سے پی ٹی آئی اٹھارویں ترمیم کے نام پر بھی ایک قدم پیچھے ہٹتی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اب پی ٹی آئی اٹھارویں ترمیم کو مکمل تبدیل کرنے کی بجائے اس کے کچھ ناگزیر حصوں کو تبدیل کرنے کی بات کررہی ہے۔ اِن دنوں موجودہ پارلیمانی نظام کی ناکامی اور صدارتی نظام کی سوچ کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں جس پر پیپلز پارٹی آگ بگولہ ہوگئی کیونکہ پیپلز پارٹی کی بقاء صرف موجودہ پارلیمانی نظام میں ہی ہے۔

یہاں بھی پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی کے سامنے گھٹنے ٹیک دےئے اور صدارتی نظام کی بحث کو غیرضروری قرار دے دیا۔ ہمارے دیہاتوں میں کسان اپنی فصلوں کو چرند پرند سے بچانے کے لیے ایک روایتی طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ دن یا رات کے کسی پہر کسانوں کو جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ چرند پرند اُن کی فصلوں میں گھس گئے ہیں تو کھیت کے کنارے اکٹھے ہوکر زور زور سے ڈھول بجایا جاتا ہے یا لوہے اور تانبے کے برتنوں پر چمچے مارکر شور پیدا کیا جاتا ہے۔

اس شوروغل سے چرند پرند ڈر کر بھاگ جاتے ہیں۔ حالانکہ کسان نہ تو ان کا پیچھا کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں مارتے ہیں بلکہ صرف شور شرابے سے ہی اپنا مقصد حاصل کرلیتے ہیں۔ جس طرح پرانے یونان کے لوگ اپنی دیومالائی کہانیوں کے ڈراوے کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتے تھے ویسے ہی پیپلز پارٹی اپنے سیاسی نعروں کی دیومالائی روایات کا شور شرابہ برپا کرکے سیاست میں کامیابیاں حاصل کرتی ہے۔ لگتا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام کی تبدیلی سے دستبرداری، اٹھارویں ترمیم کے بارے میں ایک قدم پیچھے ہٹنا اور صدارتی نظام کی بحث کو غیرضروری قرار دینے سے پی ٹی آئی بھی پیپلز پارٹی کی دیومالائی روایات کے ڈراوے میں آگئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :