آخر جنوری ہی کیوں؟

اتوار 6 دسمبر 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

پی ڈی ایم کے احتجاجی جلسوں کے کارواں نے ملتان میں پڑاؤ ڈالا اور کامیابیاں سمیٹنے کے بعد لاہور روانگی کے لیے اپنے خیمے اٹھا لیے۔ ملتان کے جلسے کو روکنے کا حکومتی اعلان حکومت کے لیے شرمندگی ثابت ہوا۔ سیاسی طور پر پختہ حکومت ایسے اعلانات نہیں کرتی کیونکہ عمومی طور پر عوامی جلسوں کو روکنا ناممکن ہوتا ہے۔ جلسہ روکنے کا اعلان ہونے کے بعد نہ روکے جانے کی صورت میں اِسے اپوزیشن کی کامیابی سمجھا جاتا ہے جو اِس مرتبہ بھی ہوا۔

بظاہر ملتان کا جلسہ حکومت کی پسپائی اور اپوزیشن کی کامیابی تھی لیکن معاملات کا بغور جائزہ لینے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جلسے سے چند گھنٹے قبل اپوزیشن کو کھلی چھٹی دے دینا دراصل کسی بیک ڈور سمجھوتے کی وجہ تھی۔ اس مفروضے کو تقویت اُس وقت ملی جب ملتان جلسے میں موجود پی ڈی ایم قائدین کی تقریریں سامنے آئیں۔

(جاری ہے)

مریم نواز کے علاوہ پی ڈی ایم کے دیگر رہنماؤں نے لوپروفائل کے ساتھ اپنا بیانیہ پیش کیا۔

یہاں تک کہ آصفہ بھٹو کی پہلے سے تیار کی ہوئی تقریر میں بھی سلیکٹرز کا لفظ کہیں موجود نہیں تھا۔ انہوں نے پوری تقریر میں ایک مرتبہ بھی سلیکٹرز کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ صرف سلیکٹڈ کو مخاطب کیا۔ مولانا فضل الرحمان کے ہاں بھی اس مرتبہ وہ جاہ و جلال نہیں پایا گیا جو اُن کا کوئٹہ کراچی اور پشاور کے جلسوں کا خاصہ تھا۔ مزید یہ کہ مولانا فضل الرحمان، مریم نواز اور آصفہ بھٹو کی تقاریر کے علاوہ بلوچستان سندھ کے پی کے سمیت کسی اور رہنما کی تقریر براہِ راست بعض چینلز پر نشر بھی نہیں کی گئی۔

پی ڈی ایم کے اس تقریری جلسے کو مریم نواز کے علاوہ ڈھیلی ڈھالی تقریروں کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے۔ پی ڈی ایم کے ملتان پہنچنے پر جس شور شرابے کی توقع تھی وہ جلسے سے پہلے جلسہ کروانے کی جدوجہد میں ضرور نظر آیا لیکن جلسے کے سٹیج سے اٹھنے والے ٹھنڈے شعلے اس بات کی چغلی کھا رہے تھے کہ کہیں یوسف رضا گیلانی اینڈکو نے اپنی مستقبل کی سیاست کو بچانے کے لیے خاص کارنرز کے ساتھ یہ سمجھوتہ کرلیا ہوکہ ملتان کے پی ڈی ایم جلسے سے اداروں اور اعلیٰ شخصیات کے خلاف تقاریر نہیں ہوں گی اور شاید اسی بناء پر جلسے کے میزبان یوسف رضا گیلانی کو پی ڈی ایم کا ملتان میں جلسہ کرنے کی اجازت ملی ہوگی۔

یہ علیحدہ بات کہ مریم نواز اُن کے سمجھوتے کا گھیرا توڑکر باہر نکل گئیں اور دیگر باتوں کے علاوہ دوسلیکٹروں کا کہہ کر چہ میگوئیوں کا پھاٹک بھی کھول دیا۔ ملتان میں پی ڈی ایم کے جلسے کی دوسری خاص بات آصفہ بھٹو کی پہلی سیاسی تقریر ہے۔ یعنی ملتان کے جلسے سے آصفہ بھٹو نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نواسی، بینظیر بھٹو کی بیٹی، آصف علی زرداری کی بیٹی اور بلاول بھٹو کی بہن کی مناسبت سے آصفہ بھٹو کی شخصیت اس جلسے میں بیشک خاص توجہ کا مرکز مانی جانی چاہیے لیکن مواد اور ڈیلیوری کے اعتبار سے اُن کی تقریر ایک بڑے سیاسی خاندان کے رکن کی تقریر نہیں تھی۔

اگر کوئی کہے کہ آصفہ بھٹو کی یہ پہلی تقریر تھی تب بھی اپنی پہلی تقریر کی تیاری کے اعتبار سے یہ مکمل نہیں تھی۔ ہوسکتا ہے پیپلز پارٹی کے کارکن آصفہ بھٹو سے جذباتی وابستگی کے حوالے سے اُن کی تقریر پر کسی کمنٹس پر مائنڈ کریں لیکن ایک بڑے سیاسی خاندان کے رکن سے پہلی تقریر کے ساتھ بھی لوگوں کی بہت سی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ ملتان کے جلسے میں مولانا فضل الرحمان نے جمعہ ہفتہ اور اتوار کو ملک بھر میں احتجاجی جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ان کے اس فوری اعلان سے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آیا یہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کا اجتماعی فیصلہ ہے یا حسب روایت اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے اپنے انفرادی فیصلے کو پی ڈی ایم کے سٹیج سے اناؤنس کردیا ہے؟ پی ڈی ایم نے اپنے جلسوں کا جو ہائی پروفائل لیول بنا لیا ہے اُس میں ہلکی سی بھی کمی حکومت کو ہنسنے کا موقع دے سکتی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان کے جمعہ ہفتہ اور اتوار کے جلسوں کے اعلان میں ایسا خدشہ موجود ہے۔

مولانا فضل الرحمان پچھلے برس اسلام آباد میں اپنی جماعت کے دھرنے کے خاتمے پر ایسے اعلانات کرچکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے ہاں جلدبازی کے ایسے اعلانات کو لپیٹتے وقت زیادہ شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا لیکن پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے لیے جمعہ ہفتہ اور اتوار کے جلسوں کی ناکامی کی شرمندگی کو سمیٹنا مشکل ہوگا۔

پی ڈی ایم کے اِن جلسوں کے آخری پڑاؤ کا وقت آن پہنچا ہے جوکہ لاہور میں 13دسمبر کو منعقد ہوگا۔ جب پی ڈی ایم نے اپنے احتجاجی جلسوں کا اعلان کیا تھا تو ان کے دعوے تھے کہ لاہور کے جلسے سے پہلے ہی موجودہ حکومت رخصت ہو جائے گی۔ اب لاہور کا جلسہ قریب ہے۔ اگر لاہور کے جلسے کے بعد بھی موجودہ حکومت کی چھٹی نہ ہوئی تو پی ڈی ایم اپنے دعوے کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کرے گی جس کی گونج ملتان کے جلسے میں سنائی دینی شروع ہوگئی ہے۔

مثلاً ملتان میں پی ڈی ایم کے قائدین نے پی ٹی آئی کو غیرت دلواتے ہوئے کہا کہ وہ خود حکومت چھوڑکر چلے جائیں۔ اس حوالے سے اگر پی ڈی ایم والا کوئی رہنما بتا سکے کہ کبھی کوئی خود حکومت چھوڑکر گیا ہے تو پی ٹی آئی کو بھی یہ عرضی دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایم کے قائدین نے لاہور کے جلسے کے بعد اسلام آباد کی طرف سفر کا اشارہ دیا۔ گویا پی ڈی ایم والوں کو کچھ کچھ پتا چل گیا ہے کہ لاہور 13دسمبر کے جلسے کے بعد بھی ابھی بہت کچھ کرنا پڑے گا۔

پی ڈی ایم کے قیام اور احتجاجی جلسوں کے دعوؤں کے بعد یہ بات سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پی ڈی ایم نے حکومت کی رخصتی کی تاریخیں جنوری سے مشروط کیوں کررکھی ہیں؟ آخر جنوری میں کس بات کا امکان ہے جس سے پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت ختم ہوسکتی ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :