کیا عمران خان اور مریم نواز ایک پیج پر ہیں؟

ہفتہ 29 مئی 2021

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

ن لیگ کی گوگلی کبھی کسی کو سمجھ آتی ہے کبھی کسی کو نہیں آتی۔ بعض اوقات یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ن لیگ کی گوگلی خود ن لیگ والوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی۔ اِسے مرشد کی دعا کہا جائے یا حکیم کی دوا کہیں کہ ن لیگ کا سیاسی گراف کریش نہیں ہوتا بلکہ ڈبکی کھانے کے بعد پھر اُبھرکر سامنے آجاتا ہے۔ جب شہباز شریف کی حالیہ ضمانت منظور ہوئی تو سیاسی لوفروں کا خیال تھا کہ اب ن لیگ کی سیاست پر شہباز شریف کی سوچ غلبہ کرے گی جسے اگر موم کی ناک نہ بھی کہا جائے تو مولٹی فوم کی ناک ضرور کہا جاسکتا ہے جو لوہے کی طرح سخت نہیں اور نہ ہی موم کی طرح نرم ہے بلکہ فوم کے گدے کی طرح ہے جو دباؤ پڑنے پر بیٹھ جاتا ہے اور دباؤ اٹھنے کے بعد اپنی سطح برابر کرلیتا ہے۔

دوسری طرف نواز شریف جن کی عمل درآمد کنندہ مریم نواز ہیں دونوں کی سوچ اتفاق فاؤنڈری کے فولاد کی طرح ہے جسے اب تک توڑا جاسکا ہے نہ ہی موڑا جاسکا ہے۔

(جاری ہے)

شہباز شریف نے جیل سے باہر قدم رکھتے ہی پھرتیلے سیاست دان کی طرح سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں۔ پارٹی اراکین سے ملاقاتیں، دوسرے سیاست دانوں کی مزاج پرسی اور اہم غیرملکی سفارت کاروں سے میٹنگیں وغیرہ دیکھ کر سیاسی لوفروں کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوتی نظر آرہی تھی۔

پھر اچانک ن لیگ نے گوگلی کھیلی اور شہباز شریف نے ایک ہی دن کے اندر عدالت سے اپنے باہر ملک جانے کی اجازت حاصل کرلی۔ گوگلی کے منتظمین نے یہ انتظام بھی کیا کہ عدالت کا دروازہ عید کی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے آخری دن کھٹکھٹایا جائے تاکہ حکومت کے پاس اِس عدالتی اجازت کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فوری موقع نہ رہے اور چھٹیوں کے باعث حکومت کو عدالت کا دروازہ بند ملے۔

تاہم حکومت کے پاس حکومت چلانے کے لیے نااہل افراد ہی سہی لیکن اپوزیشن کو ذلیل کرنے کے لیے اہل افراد ضرور ہیں جنہوں نے شہباز شریف کو ایئرپورٹ سے واپس بھجوا کر سحری گھر کرنے پر مجبور کردیا۔ یوں حکومت نے شہباز شریف کے لندن پلان کو فی الحال ڈی پلان کردیا۔ اس موقع پر ن لیگ نے توہین عدالت، کینسر کے مریض کے انسانی حقوق اور خاص عید کے دن سرکولیشن کے ذریعے شہباز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی فائل منظور کرانے جیسے ایشوز پر حکومت کی بے عزتی بہت خراب کی لیکن ن لیگ کو اب تک یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ بے عزتی خراب تو اُن کی ہوتی ہے جن کی کوئی عزت ہو۔

اب سیاسی لوفروں کو یہ فکر لاحق تھی کہ شہباز شریف آخر اچانک لندن کیوں جارہے ہیں؟ اس کا جواب شہباز شریف کے فوم کے گدے والے مزاج کو سمجھ کر آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ تجزیہ غلط ہو یا ہوسکتا ہے صحیح ہوکہ شہباز شریف کی ضمانت میں اُن کے یاربیلی چوہدری نثار علی خان نے پُل کا کردار ادا کیا ہو۔ چونکہ چوہدری نثار پنڈی میں ہی رہتے ہیں اس لیے انہیں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اسلام آباد جانے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ انہوں نے پنڈی کا معاملہ پنڈی میں ہی طے کرلیا ہوگا۔

لوگوں کا خیال تھا کہ شہباز شریف کے باہر آنے سے عمران خان بہت پریشان ہوئے لیکن غور کیا جائے تو مریم نواز گروپ بھی کم پریشان نہیں تھا۔ اس کے لیے مریم نواز کے چند ہفتے قبل کے ایک بیان پر دوبارہ غور کرتے ہیں جنہوں نے اُس بیان میں کہا تھا کہ ہم پی ٹی آئی کو سیاسی شہید نہیں ہونے دیں گے بلکہ انہیں پانچ سال پورے کرنے دینے چاہئیں۔ جی ہاں اس بیان کو دوبارہ پڑھئیے۔

یہ وہی مریم نواز ہیں جنہوں نے چند ماہ قبل حکومت کو فوری گھر بھیجنے کے لیے دن رات ایک کردیئے اور یہاں تک کہ پی ڈی ایم کے اہم پارٹنر پیپلز پارٹی کو ناراض بھی کردیا۔ اب وہی مریم نواز پی ٹی آئی کے پانچ سال پورے کرنے پر راضی نظر آتی ہیں۔ آخر اِس میں کیا راز ہے؟ ہوسکتا ہے یہ تجزیہ غلط ہو یا ہوسکتا ہے صحیح ہوکہ شہباز شریف کے ساتھ معاملات طے ہو رہے ہوں اور بجٹ کی منظوری کے بعد اِن ہاؤس تبدیلی یا الیکشن کے ذریعے ن لیگ مخلوط حکومت میں اکثریتی جماعت کے طورپر سامنے آئے جس کی قیادت شہباز شریف کے پاس ہو۔

ایسی صورت میں مریم نواز یا نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کی امید مزید پانچ برس دور چلی جائے گی۔ پانچ برس لکھنے میں تو محض پانچ ہیں لیکن سیاست میں یہ عرصہ صدیوں سا لگتا ہے۔ مریم نواز اور نواز شریف جانتے ہیں کہ اگر فوری انتخابات ہوں تو وہ دونوں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ البتہ اگلے دو برسوں کے دوران عدالتوں میں معزز ججوں کی تبدیلی کے بعد ایسے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں جن کے باعث مریم نواز اور نواز شریف کی اپیلوں کو سن کر انہیں بے گناہ قرار دے دیا جائے اور ان کی سزائیں کالعدم ہو جائیں۔

اس کے بعد وہ کسی پبلک عہدے کے لیے اہل ہوسکتے ہیں۔ کیا مریم نواز نے پی ٹی آئی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کی بات اِسی لیے کی تھی؟ ہوسکتا ہے یہ تجزیہ غلط ہو یا ہوسکتا ہے صحیح ہوکہ پنڈی پلان کے بارے میں لندن پلان کو تیار کرنے کے لیے نواز شریف سے ملاقات کے لیے شہباز شریف لندن جارہے ہوں۔ یہ معاملہ عمران خان کے لیے تو خطرناک تھا ہی کیونکہ ان کی حکومت چلی جاتی لیکن مریم نواز کے لیے بھی خوش آئند نہیں تھا کیونکہ انہیں اگلے پانچ چھ برس وزارت عظمیٰ سے دور رہنا پڑتا۔

شہباز شریف کے باہر جانے پر رانا ثناء اللہ کی خوداعتمادی بھی قابل دید تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آپ جو چاہیں کرلیں شہباز شریف باہر جاکر رہیں گے۔ اُس وقت تو یہ دیوانے کی بڑھک محسوس ہوئی لیکن جوں جوں وقت گزرا تو رانا ثناء اللہ کی خوداعتمادی پر داد دینے کو دل کیا کیونکہ حکومت عید کے دن سرکولیشن کے ذریعے فائل منظور کروانے کے باوجود شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا نوٹی فکیشن خواہش کے باوجود جاری نہ کرسکی اور حکومت کو قانونی بھول بھلیوں میں ڈالنے کے لیے عید کی تعطیلات ختم ہونے تک روکا گیا۔ ہوسکتا ہے یہ تجزیہ غلط ہو یا ہوسکتا ہے صحیح ہوکہ شہباز شریف کے بارے میں عمران خان اور مریم نواز ایک پیج پر ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :