
امریکی خارجہ پالیسی میں پاکستان کی کم ہوتی اہمیت
پیر 7 جون 2021

سید سردار احمد پیرزادہ
(جاری ہے)
تاہم اس اہمیت کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو امریکہ کی مدد کے لیے کچھ حساس اقدامات کرنے ہوں گے۔
یہ علیحدہ بات کہ ان حساس اقدامات کے پاکستان پر خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک سوال ہے کہ ٹریڈیشنل نیشنل سیکورٹی اب دنیا کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور اُس کی جگہ ہیومن سیکورٹی یا انسانی تحفظ کے ماڈل نے لے لی ہے، اس کے جواب میں تحریر ہے کہ مغربی تاریخ دانوں کے نزدیک نیشن سٹیٹ یا قومی ریاست کا تصور 17ویں صدی میں سامنے آیا اور اُسی وقت سے نیشنل سیکورٹی کی بنیاد پڑی۔ تاہم میرے نزدیک انسانی فطرت کے مطالعے سے اس بات کا امکان ابھرتا ہے کہ انسان نے پہلے گروہوں، قبیلوں اور پھر قوموں کی صور ت میں اپنے آپ کی شناخت کروائی اور پھر انہی اکائیوں کو سیکورٹی بھی فراہم کی جسے ٹریڈیشنل نیشنل سیکورٹی بھی کہا جاسکتا ہے۔ خاص بات یہ کہ اپنی شناخت کے ان اجزائے ترکیبی میں انسان نے اپنے علاقے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جن میں رنگ، نسل، زبان اور رسم و رواج وغیرہ شامل تھے۔ اس طرح نیشنل سیکورٹی کا بنیادی تصور 17ویں صدی میں نہیں بلکہ پری ہسٹورک پیریڈ سے موجود ہے۔ اب انسانی تحفظ یا ہیومن سیکورٹی کے آج کل کے نئے ماڈل کو لیں تو اس کا اولین تصور پاکستان کے ڈاکٹر محبوب الحق نے پیش کیا تھا۔ یہ ماڈل ایک فرد کے تحفظ جس میں اُس کی معاشی سیکورٹی، خوراک کی سیکورٹی، ہیلتھ سیکورٹی، ماحولیاتی سیکورٹی، انفرادی سیکورٹی، کمیونٹی سیکورٹی اور سیاسی سیکورٹی وغیرہ شامل ہیں پر مبنی ہے۔ دیکھا جائے تو اِس وقت اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر تمام اہم انٹرنیشنل ادارے انہی مندرجہ بالا ایریاز کو انسانیت کی بھلائی کا مرکز مان بیٹھے ہیں۔ انہی منصوبوں کا نام ملینیم گولز، ایس ڈی جیز، نووَن لیفٹ بی ہائنڈ، رائٹ ٹو انفارمیشن اور فریڈم آف ایکسپریشن وغیرہ ہیں۔ غور کیا جائے تو صرف انہی ایریاز کے لیے زیادہ تر انٹرنیشنل فنڈز اور امداد فراہم کی جارہی ہے۔ ہیومن سیکورٹی کا دلفریب ماڈل جسے مغرب بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے اس کے اصل موجد یا فلاسفر ڈاکٹر محبوب الحق تھے لیکن مغرب نے ان کا نام اس ماڈل کے موجد یا فلاسفر کے طور پر مٹا دیا ہے تاکہ پاکستان کو دانشمندی میں کسی طرح کا کریڈٹ نہ مل سکے۔ اگر فرض کرلیں کہ انسانی تحفظ یا ہیومن سیکورٹی کا ماڈل پوری دنیا میں رائج ہو جائے تو پھر شاید دنیا کی بڑی طاقتوں کا اگلا قدم یہ ہوکہ ہیومن سیکورٹی کے ہوتے ہوئے جغرافیائی سرحدوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جغرافیائی سرحدیں نیشن سٹیٹس کی ضرورت ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ مغرب یا امریکہ جو ماڈل بھی پروان چڑھاتے ہیں اس میں سب سے پہلے وہ اپنا مفاد دیکھتے ہیں جسے وہ پریگمیٹک یا نیشنل انٹرسٹ کا نا م دیتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ انسانی تحفظ یا ہیومن سیکورٹی پر مکمل عملدرآمد کے لیے مسلم ممالک اور چین کو ٹارگٹ کیا جائے گا جبکہ مغرب اور امریکہ اپنے ایسے اعدادو شمار پیش کریں گے جن میں وہ خودبخود انسانی تحفظ یا ہیومن سیکورٹی کے گراف میں بہت اونچے نظر آئیں گے۔ اس طرح وہ اپنی ٹریڈیشنل نیشنل سیکورٹی کو اپنی جغرافیائی حدود کے ساتھ برقرار رکھتے ہوئے دنیا کے مختلف حصوں میں ٹارگٹڈ ایریاز کو ہیومن سیکورٹی کی زد میں لاتے رہیں گے۔ اب اس بات پرکہ پاکستان ہیومن سیکورٹی کے حوالے سے امریکہ کے نزدیک کم اہم ہوگیا ہے پر مختصر دلیل یہ دی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں بھی 222 ملین یا 22 کروڑ انسان بستے ہیں۔ کیا ہیومن سیکورٹی کے ویسٹرن ماڈل میں انسانوں کی تعداد کا کوئی ذکر ہے؟ یقینا اس حوالے سے انسانی تعداد کا تعین نہیں ہوسکتا۔ تو پھر یہ کہنا کہ ہیومن سیکورٹی کے حوالے سے پاکستان دنیا کے نزدیک کم اہم ہوگیا ہے شاید درست نہ ہوگا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مغرب اور امریکہ پاکستان میں ہیومن سیکورٹی کے ایشوز بناتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان پر مختلف طریقے سے دباؤ ڈال رہا ہے اور ڈالے گا۔ اس دلیل کے بعد یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ چونکہ پاکستان مغرب اور امریکہ کے لیے جیوسٹریٹجک پلان میں ایک استعمال شدہ ٹول ہے جس کی اب ضرورت نہیں لہٰذا اب اسے امریکی خارجہ پالیسی کے کم اہم خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ میرے نزدیک دنیا پر حکمرانی کے لیے ہیومن سیکورٹی کی نئی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاک بھارت مذاکرات میں امریکہ کی مداخلت یا سہولت کاری کا امکان نہیں ہے، میں اس جملے کو اس طرح پڑھوں گا کہ امریکہ نے پاک بھارت مذاکرات میں کبھی بھی مداخلت یا سہولت کاری نہیں کی بلکہ پاکستان کو چاکلیٹ دے کر چپ کروائے رکھا اور بھارتی مفاد میں سندھ طاس معاہدہ، تاشقند اعلانیہ اور شملہ معاہدہ وغیرہ ہوگئے۔ اس لیے ہمیں اپنی ہسٹری میں اس خام خیالی پر اعتراض کرنا چاہیے کہ کبھی بھی امریکہ نے اپنے یا بھارتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر صرف پاکستان کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہو۔ لہٰذا اگر امریکہ نے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا تو اب اس کا امکان سوچنا بھی اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا۔ یہ کہنا بھی آدھا سچ اور آدھا غلط ہے کہ پاک بھارت مذاکرات میں امریکی مداخلت نہ ہونے کی وجہ عالمی رجحان کی طرف دیکھنا ہے اور امریکہ چین کے گھیراؤ کے لیے بھارت کی معاونت جاری رکھے گا۔ اس بات میں آدھا غلط یہ ہے کہ گلوبل ٹرینڈ امریکہ پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ گلوبل ٹرینڈ بناتا ہے۔ مندرجہ بالا بات میں آدھا سچ یہ ہے کہ امریکہ چین کے گھیراؤ کی پالیسی کے لیے بھارت کو معاونت فراہم کرے گا۔ یعنی بھارت کا اب وہ کردار ہوگا جو پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف ادا کیا۔ بھارت میں ہندو انتہاپسندی کے رجحان کی وجہ بھی بالکل ویسی ہی ہے جیسے سوویت یونین کے خلاف جہادی نظریئے کو ابھارا گیا۔ مطلب آسان ہے کہ انٹرنیشنل پالیسی کے تحت بھارت میں ہندو انتہاپسندی کو مضبوط کیا جارہا ہے۔ فی الحال اس کا ٹارگٹ بھارت کی مسلم آبادی اور دیگر اقلیتیں ہیں لیکن حتمی نتیجے کے لیے اسی انتہاپسندی کو چین کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مختصر یہ کہ برصغیر کے ملک پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا، بھارت کو چین کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ برصغیر کے تیسرے ملک بنگلہ دیش کو کس کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے؟ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید سردار احمد پیرزادہ کے کالمز
-
آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش
ہفتہ 19 فروری 2022
-
نیشنل سکلز یونیورسٹی میں یوم تعلیم پر سیمینار
منگل 8 فروری 2022
-
اُن کے گریبان اور عوام کے ہاتھ
بدھ 2 فروری 2022
-
وفاقی محتسب کے ادارے کو 39ویں سالگرہ مبارک
جمعہ 28 جنوری 2022
-
جماعت اسلامی کا کراچی میں دھرنا۔ کیوں؟
پیر 24 جنوری 2022
-
شارک مچھلی کے حملے اور سانحہ مری کے بعد فرق
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
نئے سال کے لیے یہ دعا کیسی ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
قاضی حسین احمد آئے، دیکھا اور لوگوں کے دل فتح کیے
ہفتہ 8 جنوری 2022
سید سردار احمد پیرزادہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.