جناب والا! تبدلی کو روکیے

پیر 17 ستمبر 2018

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پاکستان تحریک انصاف کو سب سے زیادہ مقبولیت موروثیت کے خلاف جہاد کے نعرے پہ ملی۔ لوگ اس تبدیلی کو اولین ترجیح دیتے نظر آئے شاید وہ چاچے، مامے کی سیاست سے تنگ آ چکے تھے۔ ان کو ایک مسیحا نظر آیا جس کے بارے میں کہا جانے لگا کہ اس کے مفادات ذاتی یا خاندانی تو ہیں نہیں۔ اس کو کیا پڑی ہے کہ عوام کے لیے ذلیل و خوار ہوتا رہے۔ اور آج بھی یہ چاہے تو مزے سے کسی یورپی ملک میں کمنٹری کرتے ہوئے یا کوچنگ کرتے ہوئے گزار سکتا ہے۔

لگژری لائف اس کی منتظر ہے۔ یہ تو اپنے وطن کے لیے کچھ کرنے کی دھن ہے جو اس پہ سوار ہے ۔ یہ وطن کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا کہ میں تو سہہ لوں گا لیکن آپ نہیں سہہ سکیں گے لوگوں کے دلوں کی آواز بن گیا اور عوام کے سامنے نتیجہ ہے کہ بائیس سالوں کی جہدو جہد کے بعد بڑے بڑے سیاسی بت پاش پاش ہو گئے اور پاکستان تحریک انصاف اس وقت صوبہ پنجاب(جس پہ وفاقی حکومت کا دارومدار بھی ہوتا ہے کہ ماضی میں وفاق میں بی بی اور پنجاب میں میاں صاحب کی حکومت کا نتیجہ بھی ہم دیکھ چکے ہیں) صوبہ خیبر پختوانخواہ، بلوچستان میں اتحادی اور وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کا طوطی بول رہا ہے۔

(جاری ہے)

ان پہ کی گئی تنقید نقار خانے میں طوطی کی آواز لگتی ہے لیکن طوطی کی آواز بھی سامنے آتی رہے گی۔
ضمنی انتخابات د و ہزار اٹھارہ کا ڈھول بج رہا ہے۔ اور ہنگامہ برپا ہونے کو ہے۔ اس کے ساتھ تبدیلی بھی سسک سسک کر اپنے ہونے کی دعویدار ہے اور دم توڑتے ہوئے بھی واویلا کر رہی ہے کہ میں بھی ہوں کہ جس کے نام پہ ووٹ لیے گئے،کیوں مجھے ایسے لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔

تبدیلی کو بڑا سمجھایا کہ دیکھو این اے تریسٹھ کا ٹکٹ تو وفاقی وزیر غلام سرور خان کی منشاء و رضا کے کے بغیر کسی کو ملنے سے رہا۔ اس کے لیے ان کے اپنے خاندان سے ہٹ کے بھلا عوامی خادم کون ہو سکتا ہے، بھتیجا تو پہلے ہی اسمبلی میں ہے تو باقی بچے بھائی یا بیٹا تو اُن کو ہی ٹکٹ ملے گا نا پاگل۔ کہ یہاں راجوں، مہاراجوں، ملک، خان، سید، پیر ہی تو حکمرانی کے قابل ہیں۔

تم اپنے بین کسی اور جگہ جا کے کرو۔ تبدیلی بے چاری کیا کرتی ۔ اپنا خالی کاسہ اُٹھائے اٹک جا پہنچی اور فریادی ہوئی کہ مجھے یہاں ہی کوئی اہمیت دے دو، لیکن وہاں جو نئے نئے بلے کے نشان پہ اور صادق جناب طاہر صادق نے دوسری نشست جیتی ہے وہ بھلا زین الہٰی کے علاوہ کسی کی جھولی میں ڈال سکتے ہیں؟ محنت اُن کی اپنی ، خرچہ اُن کا اپنا، تو تبدیلی کی اتنی جرات کہ وہ فریاد کر سکے، قومی امکان کہ تبدیلی یہاں سے بھی بوریا بسترا آخر میں سمیٹے گی اور ٹکٹ طاہر صادق صاحب کے اولاً خاندان میں ہی رہے گا ، ثانیاً خاندان نہ سہی تو حلقہ ء احباب سے باہر نہیں جا سکتا۔

تبدیلی نے اپنی بے قدری شاید محسوس کر لی، اسی لیے اس نے رختِ سفر باندھا این اے ساٹھ کا، لیکن یہ کیا یہاں تو تبدیلی اور موروثیت کے خلاف جہاد کے نعرے کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا گیا، اور داخلی دروازے سے ہی دربانوں نے ڈانگ سوٹا کرنا شروع کر دیا کہ بھئی یہاں تو شیخ رشید احمد کے خاندان کے اہم فرد راشد شفیق کو ٹکٹ مل بھی چکا ہے۔ یہاں تو تبدیلی کو داخل نہ ہونے دینے کے واضح احکامات موجود ہیں، لہذا یہاں سے بھی تبدیلی اپنا سا منہ لیے رہ گئی ہے۔

کسی سیانے نے تبدیلی کو مشورہ دیا کہ بھئی تمہاری دال یہاں گلنے والی نہیں ہے تم اپنے آبائی علاقے یعنی خیبر پختونخواہ کیوں نہیں چلی جاتی۔ مشورہ تو یقینا بہترین تھا کہ آبائی وطن تو پناہ گاہ کی طرح ہوتا ہے۔ لیکن اب تبدیلی بے چاری کیا بتاتی کہ وہ تو وہاں سے بے گھر ہوئی تو ہی پورے ملک میں لاوارث پھر رہی ہے نا۔ وہاں تو جو اُمید تھی وہ بھی خٹک خاندان نے بھگا دی ہے کہ پی کے اکسٹھ سے پرویز خٹک کے بیٹے ابراہیم خٹک اور پی کے چونسٹھ سے پرویز خٹک کے ہی بھائی لیاقت خٹک بطور امیدوار سامنے ہیں۔

اب تبدیلی نے بہت شور مچایا کہ جناب لیاقت خٹک تو ضلع ناظم ہیں لیکن درشت لہجے میں اُسے چپ کروا دیا گیا کہ تم کون ہوتی ہو رائے دینے والی۔ ہم وہ سیٹ چھڑوا دیں گے۔ یہ الگ بات کہ وہ نظامت بھی دوسرے بھتیجے کو بخش دیں گے۔او ر تبدیلی کو یہ سوال اٹھانے ہی نہیں دیا گیا کہ پہلا بھتیجا تو پہلے سے تحصیل ناطم بھی ہے۔ تبدیلی کی یہ بات تو کسی نے سنی ہی نہیں کہ بھئی اسی خاندان کی دو مستورات اور داماد جی بھی تو رکن اسمبلی ہیں۔

لیکن تبدیلی کے بین کون سنے، فریاد کی گھنٹی بجانے پہ مداوا بھلا کون کرئے۔ تبدیلی کو یہاں سے ہری جھنڈی ہے تو اسد قیصر محترم کے چھوڑے گئے صوبائی حلقے سے بھلا کہاں امید ہو سکتی ہے۔اب تبدیلی کو اُمید بس لاہور سے ہے کہ شاید وہاں کچھ پناہ مل جائے یا پھر بچ گیا اسلام آباد کہ شاید وہاں کچھ سکون میسر آجائے۔ کیوں کہ کراچی میں تو تبدیلی کے ساتھ ساتھ اُمید بھی بین کر رہی ہے۔


تو جناب والا! تبدیلی کو روکیے، کہ تبدیلی آج تو بین کر رہی ہے اور کچھ سنائی بھی دے رہے ہیں۔لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی سسکیاں بھی دب جائیں ۔ آپ اس کے بین نہیں سنیں گے، آپ اس کی فریاد پہ داد رسی نہیں فرمائیں گے تو بادشاہ سلامت !اور کون غور فرمائے گا۔ تبدیلی کو روک لیجیے، اس کو یوں لاوارث نہ کیجیے۔ یہ تو بڑی منتوں مرادوں سے لی تھی آپ نے۔ خدارا اِس کو روک لیجیے، جنابِ والا! تبدیلی کو روکیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :