کرونا وائرس ایران میں، کیا ہم تیار ہیں؟

منگل 25 فروری 2020

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

پوری دنیا اس وقت پریشانی میں ہے۔ اور خاص طور پر چین میں اس وقت حالات انتہائی دگرگوں ہیں۔ لیکن چین کا ماضی دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین اس وباء سے نمٹ لے گا اور ہزار بستروں کا ہسپتال بنانا ہمارے سامنے ہے۔ اور چین کے اقدامات ہی تھے کہ شائد یہ وائرس پوری دنیا کو ابھی لپیٹ میں نہیں لے سکا۔ لیکن اب اس وائرس کی بازگشت ایران میں سنائی دی جانے لگی ہے اور شنید ہے کہ قم میں چینی شخص کی آمد کی وجہ سے یہ وہاں پھیلنا شروع ہوا۔

ہم اس لمحے کیا تیار ہیں؟
بلوچستان کی سرحد نہ صرف ایران سے ملتی ہے بلکہ ایرانی بلوچستان یعنی وہ حصہ جو ایران کا حصہ ہے وہاں معمولات زندگی منجمد ہونے لگے ہیں۔ پاکستان سے سینکڑوں کی تعداد میں زائرین مقامات مقدسہ کی زیارات کے لیے تفتان بارڈر کے راستے ایران داخل ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اور قم میں ہی زیادہ تر ان کا قیام ہوتا ہے۔ مشہد، تہران اور دیگر شہروں میں بھی ان کے سفر میں پڑاؤ ہوتا ہے۔

وائرس کے پھیلنے کا خدشہ ہی قم سے ظاہر کیا گیا ایران میں۔ ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ چین میں پاکستانی طلباء کی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور اس حوالے سے گذشتہ دنوں مشیر صحت اور مشیر اووسیز پاکستانیز کی پریس کانفرنس میں ہم نے ایک المیہ دیکھا کہ کیسے والدین پریشان ہیں اپنے بچوں کے لیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی اور سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ چین سے پاکستانی طلباء کی پریشان کن ویڈیوز سامنے آنے لگیں۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ چین میں موجود تھے؟ کیا انہوں نے اپنے شہریوں کو ایسے ہی ڈیل کیا جیسے ہم نے؟ جاپان کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ بحری جہاز جس میں کرونا مریضوں کی بڑی تعداد موجود ہے، وہ بھی آپ پڑھ، دیکھ اور سن چکے ہوں گے۔ لیکن ان تمام ممالک نے فوری ردعمل دیتے ہوئے ضروری اقدامات کیے اور آپ کو اس وقت چاہے اخبارات دیکھیں یا نیوز چینلز ہیجانی کیفیت کسی ملک میں نظر نہیں آتی۔

ہمارا اب مزید امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔
چین نے کسی نہ کسی طرح اس وباء کو ایک شہر یا کچھ علاقے تک محدود کیا ہوا ہے۔ لیکن ایران جو پہلے ہی پابندیوں کا شکار ہے وہاں اس وباء کا پھوٹ پڑنا پوری دنیا کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ ایران کے پاس نا تو مناسب طبی سہولیات موجود ہیں۔ نہ ہی ان کے پاس اس وباء سے نمٹنے کے لیے مناسب تکنیکی سہولیات موجود ہوں گی۔

ایران ایک لمبے عرصے سے پابندیوں کا شکار ہے۔ اس لیے وہاں تحقیق و ترقی ایک دائرے میں گھوم رہی ہے کہ ٹیکنالوجی کا تبادلہ ممکن نہیں ہو سکا۔ ایسی صورت حال میں وائرس کا اس خطے میں پہنچنا، پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہیں سے اللہ نہ کرئے یہ وائرس اگر افغانستان کا رخ اختیار کر لیتا ہے تو وہاں کے حالات بھی ایسے نہیں کہ اس سے نمٹا جا سکے اور پاکستان کی وسیع سرحد افغانستان کے ساتھ منسلک ہے۔

اور باقاعدہ سرحدی گزرگاہوں کے علاوہ ہزاروں غیر قانونی انٹری پوائنٹس یقینی طور پر موجود ہوں گے۔ جو پاکستان کے لیے چلتے پھرے ایٹم بم کی صورت ہیں۔ لیکن اس وقت ملک میں ہنگامی بنیادوں پہ اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ اور اس وباء کا یا تو ہمیں مکمل ادراک نہیں ہے یا پھر ہم اپنی ازلی سستی کے ہاتھوں خود آپ اپنا گریباں چاک کیے ہوئے ہیں اور مصیبت سر پہ پڑنے کا انتظار کر رہے ہیں۔


وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ بلوچستان سے بات کی اور حالات کا جائزہ لیا۔ لیکن یہ کافی اس لیے نہیں کہ بلوچستان حکومت کے پاس کیا تکنیکی سہولیات اس مسلے سے نمٹنے کے لیے موجود ہوں گی؟ یقیناً نہیں ،کہ تفتان بارڈر ایریا ویسے بھی اتنا ترقی یافتہ نہیں۔ مزید یہ کہ پاکستانی زائرین جو تفتان بارڈر سے پاکستان کی جانب موجود ہیں ان کو تو واپس کیا جا سکتا ہے۔

لیکن تفتان بارڈر پہ ایران کی جانب بہت سے زائرین پاکستان واپسی کے منتظر تھے کہ بارڈر بند کرنا پڑا۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس بارڈر بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن ہمیں ایک قدم آگے بڑھنا ہو گا کہ چین کے اندر موجود پاکستانیوں جیسے حالات یہاں پیدا نہ ہوں۔ ایرانی حکام سے رابطہ کر کے ہنگامی بنیادوں پر ایرانی حدود کے اندر بھی اقدامات کی پیش کش کرنا ہو گی کہ یہ ہمارے لیے بہتر ہے۔

ہم ایسا نہیں کریں گے تو پاکستان کا پسماندہ صوبہ خطرے میں پڑ جائے گا۔
 اس وقت دنیا کو ایران کی مدد کرنی چاہیے کہ ایران بیشک دعویٰ بھی کرئے کہ وہ حالات سے نمٹ لے گا مگرپوری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت ایران کی مالی اور انتظامی حالت کیا ہے۔ کرونا وائرس کو نہ تو میزائیل سے شکست دی جا سکتی ہے کہ ایران اس سے آسانی سے نمٹ لے نہ ہی کسی اور دفاعی طاقت سے۔

اسے صرف ٹیکنالوجی اور حفاظتی تدابیر سے شکست دی جا سکتی ہے جس میں ایران کو مدد کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں اپنے ہم وطنوں کی حفاظت کا خیال کرتے ہوئے اپنے تمام وسائل چاہے وہ طبی سہولیات ہوں، پاک فوج کے ڈاکٹرز ہوں، یا دیگر ملکی ادارے سب کا رخ اس وباء سے نمٹنے کی طرف کر دینا ہو گا۔ ورنہ حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ خرابی کی طرف جائیں گے۔


ہمیں ایران کی مدد ایران کے لیے نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے کرنا ہو گی۔ چین ترقی کی رفتار میں اس مقام پہ تھا کہ وہ ایک ہفتے میں ہزار بستروں کا ہسپتال بنا سکتا تھا اور وباء کے خلاف تن تنہا کام کر سکتا ہے۔ لیکن ایران کے حالات یکسر مختلف ہیں۔ ایران میں صورتحال نہایت تشویش ناک اس لیے بھی ہے کہ اس سے خطے میں ایک شدید خطرہ منڈلانے لگا ہے اگر اس خطرے کا ادراک نہ کیا گیا اور دنیا آپس کے سیاسی مسائل میں ہی الجھ کے مدد کو ہاتھ بڑھاتی نظر نہ آئی تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :