شاہ محمود قریشی ، سعودی عرب، معافی تلافی

ہفتہ 22 اگست 2020

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

اگر شاہ محمود قریشی یا سعودی عرب میں سے کوئی ایک بھی اکڑ گیا تو؟ اس ایک جملے میں شائد مستقبل کا منظر نامہ دھندلا سا گیا ہے۔ اگر واقعی دستیاب مفروضوں کی بنیاد پہ دوست ملک ہمارے وزیر خارجہ کا استعفیٰ ہی مانگتا ہے تو پھر حکمران جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلی صورت میں وہ دوست کو راضی کرنے کے لیے مکمل طور پر شاہ محمود قریشی سے نا صرف استعفیٰ لیں بلکہ ان کی باز پرس بھی کی جائے۔

اور قوی امکان یہی ہے کہ اس کے نتیجے میں پارٹی کے سینئر راہنما کے راستے پاکستان تحریک انصاف سے الگ ہو سکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف خود کو اور شاہ محمود قریشی کو محفوظ راستہ دینے کا بندوست کرئے۔ اب یہ محفوظ راستہ کیا ہو سکتا ہے؟ پہلی صورت تو یقینی طور پر ایک بہت بڑا جواء ہو گا لیکن دوسری صورت میں سعودی عرب جا کے جو کوششیں ہو رہی ہیں ان کے تحت معافی تلافی کا سین چلا لیا جائے۔

(جاری ہے)

اور کچھ ایسا راستہ نکالا جائے کہ دوست بھی راضی رہے اورسینئر پارٹی راہنما بھی۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ بہرصورت نقصان شاہ محمود قریشی صاحب کا سیاسی طور پر ہو گا۔ کیوں کہ معافی مل جائے یا نا ملے، دونوں صورتوں میں ان کی سیاسی ساکھ داؤ پہ لگ سکتی ہے۔
آخر شاہ محمود قریشی نے اتنا سخت بیان کیوں دیا؟ شاہ محمود قریشی نے پروگرام میں دوبارہ پوچھے جانے پہ بھی جس طرح کے رویے کا مظاہرہ کیا اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ جلد بازی کا بیان نہیں تھا۔

بلکہ شاہ محمود قریشی صاحب اس بیان کے سیاق و سباق کو مکمل سمجھ کر الفاظ کی ادائیگی کر رہے تھے۔ ایک ایٹمی ملک کا وزیر خارجہ اور وہ بھی ایسا سیاستدان جو اپنے سیاسی کیرئیر کا کم و بیش مکمل عروج دیکھ چکا ہے۔ (اس نقطہء عروج سے آگے صرف ایک ہی منزل ہے جو ابھی قریشی صاحب کو نہیں مل سکتی)۔ تو یہ فرض بھی نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے یہ بیان بناء کسی مشاورت یا بناء کسی کے علم میں لائے دے دیا ہے۔

یہ بات بھی قریں از قیاس نہیں کہ جس طرح کشمیر کے محاصرے، ناکہ بندی، اور کرفیو کو ایک سال ہو گیا ہے اور امت مسلمہ کی نیند ہے کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی، تو یہ بنیادی طور پر نیند سے جگانے کا ایک باقاعدہ مصنوعی درمیانی شدت کا زلزلہ پیدا کیا گیا ہو اور یہ بتانا مقصود ہو کہ جناب آپ اگر ہماری مدد کو نہیں آئیں گے تو امید ہم سے بھی نا رکھیے گا۔

واقعی ہلکی شدت کا زلزلہ سا تو آیا ہے اور اب یقینی طور پر اس کے آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے۔ ان آفٹر شاکس کا تسلسل معافی تلافی پہ ٹوٹتا ہے یا عہدے سے برخاستگی، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرئے گا۔ لیکن خطے کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس بات کے واضح اشارے ملتے ہیں کہ اب شائد پاکستان ایسے بیانات افورڈ کرنے کی پوزیشن میں آتا جا رہا ہے۔

خطے میں مشرقی سرحد پہ مشکلات تو درپیش تھیں ہی، لیکن مسلہ مغربی سرحد کا بھی تھا۔ لیکن بدلتے حالات کے تناظر میں یہ مشکلات صرف مشرقی سرحد تک محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ ایران کے ساتھ چین کی متوقع ڈیل نا صرف چین و ایران کے تعلقات کو مضبوط بنائے گی۔ بلکہ اس ڈیل کے پس منظر میں پاکستان بھی سکھ کا سانس اس لیے لے گا کہ اس سے قبل ایران میں تمام سرمایہ کاری بھارت کر رہا تھا۔

کلبھوشن تو آپ کو یاد ہو گا ہی۔ چاہ بہار بندرگاہ کی خغرافیائی اہمیت اور اس میں بھارت کی سرمایہ کاری بھی بناء مقصد کے تو ہرگز نہیں تھی۔ ایران میں ریلوے لائن کی تعمیر کا منصوبہ بھی ذہن نشین رکھیے۔ یہ تمام سرمایہ کاری بھارت کی طرف سے اگر کی جا رہی تھی تو یقینی طور پر بیل منڈھے چڑھ جانے پر بھارت کو ایک مضبوط بیس بھارت سے باہر میسر آ جاتا پاکستان کے ساتھ پراکسی وار کے لیے۔

لیکن چین ایران متوقع ڈیل نے بھارت کے ارمانوں پہ پانی پھیر دیا ہے۔ اور ریلوے پراجیکٹ سے بھارت کو نکالے جانے کی خبر بھی پاکستان کے لیے کم از کم تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ان تمام حالات کو مدنظر رکھیے اور اب سعودی عرب کی بھارت میں آئل ریفائنری لگانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کا جائزہ لیجیے۔ خطے میں پاکستان ایران، چین، نیپال، جب ایک سمت کی طرف گامزن ہیں تو دوسری جانب سعودی عرب کی بھارت میں سرمایہ کاری اور مسلہ کشمیر پہ مسلسل خاموشی پاکستان کو کیسے ہضم ہو سکتی ہے۔


شاہ محمود قریشی کا صرف ایک بیان نہیں ہے بلکہ مستقبل کا لائحہ عمل ہے۔ اس بیان کی وجہ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک واضح سمت دکھائی گئی ہے سعودی عرب کو کہ ہم بھائی ہیں، جذباتی وابستگی ہے ہماری تو پھر کیوں آپ اس وابستگی کو توڑنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ اور خطے کی بدلتی صورتحال پہ شہزادہ محمد بن سلمان کی بھی یقینی طور پر نظر ہے۔ شاہ محمود قریشی کے بیان پہ ناراضگی اپنی جگہ لیکن سعودی عرب بہرحال سی پیک، چین ایران ڈیل، پاکستان کا خطے میں کردار، نیپال و بنگلہ دیش کے رویوں سے حالات کا بغور جائزہ بھی لے گا۔

اور دانشمندی کی کمی شہزادہ محمد بن سلمان میں نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان ابتداء ہے خطے میں تعلقات کے ایک نئے دور کی۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ سعودی عرب دانشمندی اور بردباری کے بجائے شاہ محمود قریشی کے بیان کو بس ایک بیان سمجھتے ہوئے اس پہ اکڑ جاتا ہے تو پھر مشکلات پاکستان تحریک انصاف کے لیے اس لیے بڑھ جاتی ہیں کہ اگر وہ سعودی عرب کے کہنے پہ شاہ محمود قریشی کو عہدے سے برخاست کرتے ہیں تو وہ نا صرف ایک اہم راہنما کو کھو دیں گے بلکہ مستقبل میں یہ برخاستگی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

اور اگر بات معافی تلافی پہ منتج ہوتی ہے تو شاہ محمود قریشی معافی کی طرف آ بھی گئے (جو بہرحال ایک آپشن کے طور پر موجود ہے) تو ان کی سیاسی ساکھ کو ایسا نقصان پہنچے گا کہ جسے بحال کرنا ان کے لیے جوئے شیر کھود لانے کے مترادف ہو گا۔ اور شاہ محمود قریشی جیسا سیاستدان اپنے پاؤں پہ کلہاڑی نہیں مارے گا۔
فرض کیجیے سعودی عرب وضاحت مان لیتا ہے، معاملات بہتر ہو جائیں گے۔
فرض کیجیے سعودی عرب اکڑ جاتا ہے، غیر دانشمندانہ طور پر، تو حکومت کے لیے مسائل ہوں گے۔
اور فرض کیجیے شاہ محمود قریشی اکڑ جاتے ہیں تو حالات پاکستان تحریک انصاف کے لیے بہتری کی نوید نہیں لائیں گے۔
اور پاکستان سعودی عرب تعلقات کے حوالے سے نواز شریف کے کردار کو فرض بھی نا کیجیے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :