آئینی و دستوری انحطاط اور تقاضائے وقت

پیر 23 دسمبر 2019

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

دستور یا آئین کسی بھی ریاست کے بنیادی عناصر کا ایک اہم عنصر ہے جس سے نظامِ ریاست، طرزِ حکومت اور انتخابِ حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست کی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات و فرائض اور حدودِ کار کا تعین بھی ہوتا ہے- ہماری ملکی تاریخ کی کتاب طاقت و اختیار کے حصول میں باہمی رقابتوں،محلاتی سازشوں اور اقتدار کے ایوانوں میں اکھاڑ پچھاڑ کی عجیب و پراسرار سانحات سے بھری پڑی ہے-
بدقسمتی سے بانی پاکستان اور ان کے دست راست لیاقت علی خان کی زندگیوں نے وفا نہ کی، اور وہ تقسیم ہند کی دھول مٹی بیٹھنے سے قبل ہی داغ مفارقت دے گئے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی آئینی عمارت ان اصول و نظریات پر استوار نہ کی جا سکی،جن کا تعین معمارِ پاکستان نے اپنی سیاسی بصیرت اور تعمیری فہم و فراست کی روشنی میں کیا تھا-
 برصغیر پاک و ہند اگست 1947ء میں دو آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوا، تقسیم کے فوراً بعد متفقہ طور پر طے یہ پایا کہ دونوں نوزائیدہ مملکتیں اس وقت تک برطانوی پارلیمان کے طے کردہ قوانین پر ہی اپنا نظم و نسق چلائیں گیں جب تک وہ اپنا آئین و دستور بنانے کے قابل نہیں ہو جاتیں، بھارت کی قومی قیادت تو اپنی قوم اور ملک سے مخلص اور اپنے قومی تشخص کی خواہاں تھی، اس لیے انہوں نے آزادی کے فوراً بعد اس پر کام شروع کیا اور کچھ ہی عرصے بعد اپنا دستور بناکر غیر ملکی اقتدار سے مکمل چھٹکارا حاصل کر لیا - جب کہ ہمارا المیہ یہ رہا کہ قیام پاکستان کے بعد داخلی آزادی و خودمختاری ملنے کے باوجود 9 سال تک ہمارا زمام حکومت اور اقتدارِ اعلیٰ آئینی و قانونی طور پر برطانوی سامراج کے ماتحت رہا، کیونکہ اس عرصے میں ہم اس قابل نہ ہوئے کہ اپنا کوئی متفقہ آئین یا قانون تشکیل دے سکیں۔

(جاری ہے)

1948 سے 1958 تک کے عرصے میں سیاسی انتشار اور بحرانی کیفیات کے اس قدر تلاطم خیز ہنگامے برپا ہوئے کہ محض 10 سالوں میں 7 وزائے اعظم تبدیل یا معزول کر دئیے گئے، اختیار و اقتدار کی اس رسا کشی اور چھینا چھپٹی میں نوزائیدہ مملکتِ خداد کی آئینی و قانونی اساس شروع سے ہی کمزور رہ گئی،جس کا نتیجہ 1971 میں دو لختی کی صورت میں نکلا- 
حقیقت یہ ہے کہ شروع میں حکمران قائدین کی اکثریت ذاتی اقتدار کی خواہاں اور مفاد پرست عناصر میں سے تھی، جو اجتماعی اور قومی سوچ سے عاری تھے،ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جن کے اجداد 1857 کی جنگ آزادی میں تاجِ برطانیہ کے وفادار اور وظیفہ خوار رہے، اسی لیے نہ تو انہیں جلد دستور سازی میں دلچسپی تھی، اور نہ انہیں ملکی و قومی وقار اور مفاد عزیز تھا-
 بحرحال تمام رکاوٹوں، سازشوں اور بددیانتیوں کے باوجود 1956ء کے اوائل میں دستور ساز اسمبلی نے ایک دستور منظور کرلیا،جسے 23 مارچ 1956ء کو نافذ بھی کردیاگیا،تاکہ نو سال بعد برطانوی اقتدار اعلیٰ کا خاتمہ کیا جا سکے-
لیکن ستم ظریفی کی انتہا دیکھئیے کہ محض 2 سال اور کچھ ماہ بعد یعنی 24 اکتوبر 1958 کو،9 سالہ انتظار، پرآشوب دور اور ھیجان آمیز سیاسی حالات میں کی گئی عرق ریزی کے بعد تیار ہونے والے اس آئینی مسودے کو صدر سکندر مرزا نے کمانڈر انچیف کی صوابدید پر اپنی ایک تقریر کی پہلی دو سطروں میں مسل کر رکھ دیا، اور یوں ملک میں پہلے مارشل لاء کی داغ بیل پڑی،اورجنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر سامنے آئے- 
آئین و قانون سے کھلواڑ کی داستانوں کا یہ نقطہ آغاز تھا، اس کے بعد پاکستان کا سیاسی نظام سنگین آئینی بحرانوں اور قانونی معرکہ آرائیوں کے چنگل میں ایسا گرفتار ہوا کہ آج تک نہ نکل سکا-
 1962ء میں اس سرزمینِ بے آئین کو ایک دفعہ پھر آئین نصیب ہوا،دستور ساز اسمبلی نے دوسرے متفقہ آئین کی منظوری دی، لیکن ملک بدستور طاقت و اختیار کی کشمکش میں سیاسی خلفشار کے بھنور میں دھنستا چلا گیا، حالات بد سے بدترین ہوتے گئے،فاطمہ جناح جیسے لوگ مادرِ ملت سے غدار کہلائے اور 1969 میں محض 7 سال بعد ملک ایک دفعہ پھر مارشل لاء کی دبوچ میں آ گیا، آئین معطل ہوا، تحریکیں چلیں، احتجاج اور جلسے جلوسوں میں اشتعال انگیزی کو نکتہ عروج حاصل ہوا، اور شومئی قسمت کہ اس افراتفری،،بدنظمی،بدانتظامی اور کشاکش میں ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے-
1973 میں ایک دفعہ پھر آئینی ڈھانچہ مرتب ہوا، جسے14 اگست 1973 کو نافذ کیا گیا، ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں اقتدار پر سیاسی حلقوں کا اثر و رسوخ بڑھا،لیکن صد حیف کہ ہم اپنے اجتماعی وجود کا شیرازہ بکھرنے کے باوجود کوئی سبق نہ سیکھ سکے، بھٹو کی سیاسی مطلق العنانیت نے رہی سہی کسر بھی نکال دی، سیاسی عدم استحکام،ریشہ دوانیوں اور محلاتی سازشوں کا سلسلہ نہ رک سکا، 1977 کے متنازع عام انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسے سیاسی بحران نے جنم لیا، جو ایک بار پھر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا باعث بنا، 1988 کے دلسوز سانحے میں جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے بعد بالآخر اقتدار ایک بار پھر سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ آیا،لیکن شائد اس مملکت خداد کا المیات میں سے ایک بڑا المیہ یہ رہا کہ ہمارے منتخب اور غیر منتخب ارباب اقتدار ہمیشہ سے ہی عقل و شعور اور فہم و فراست کے ہنر سے عاری نظر آئے اور ملکی مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے رہے، یہی وجہ تھی کہ ایک بار پھر طاقت و اختیار کی چھینا چھپٹی اور کشمکش کا سلسلہ شروع ہوا-
بے نظیر اور نواز شریف کے درمیان اقتدار کی آنکھ مچولی اور سیاسی عدم استحکام کے باعث 1999 میں پاکستانی تاریخ کا وہ نفرت انگیز باب شروع ہوا،جب ایک بہت بڑے بحران کے بعد پاکستان کا آئین ایک بار بھر معطل کر دیا گیا، اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف نے ہنگامی حالات کا اعلان کیا، اور خود چیف ایگزیکیٹو کا عہدہ سنبھال لیا۔

عدالت عظمیٰ کے ذریعے پرویز مشرف کو تین سال تک مدت ملازمت بڑھانے کاوقت ملا، اس وقت کے خاتمے کے بعد پرویز مشرف نے پانچ سالوں کے لئے خود کو پاکستان کا صدر منتخب کر لیا، اس کے بعد2007 کی ایمرجنسی کا نفاذ اور آئین کی ایک بار پھر معطلی، 60 سے زائد ججوں کی برطرفی،درجنوں ججوں کی گرفتاری کے واقعات سے لے کر حالیہ ملکی حالات تک ملک عزیز کی تاریخ حالات کی سنگینیوں،بحرانوں اور سیاسی طوفانوں سے بھری پڑی ہے-
 آج بدقسمتی سے ہمارے تمام مسائل اور ہیجان آمیزیوں کی سب سے بڑی وجہ یہی آئینی و قانونی زبوں حالی اور جمہوری اداروں کی ناقدری اور پامالی ہے، ہماری غفلت اور ریاستی حقوق سے روگردانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کئی کئی سال آئین جیسی میکنزم کے بغیر ملک چلاتے رہے، وہ آئین جسے ریاستی جسم میں روح کا درجہ حاصل ہے اور بلاشبہ اس کا ذمہ دار جمہوری اور غیر جمہوری دونوں قوتوں کو ٹھہرایا جانا ضروری ہے، کیونکہ یہ کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ دوطرفہ غفلت،کوتاہی اور کج فہمی کا نتیجہ ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 72 سالوں میں ہمیں کوئی ایسا ہمہ گیر لیڈر نصیب نہ ہو سکا جو پاکستان کو اس ڈگر پر لے کر چلتا جس کا انتخاب قائد اعظم اور ان کے رفقاء نے کیا تھا، کوئی دانش مند ایسا نہ ملا جو محمد علی جناح کا کردار ادا کرتا اور اس منقسم اور منتشر قوم کو وحدت کی لڑیوں میں پروتا، ہمارے اس 70 سالہ سفر کا کوئی دور ایسا نہیں جسے ہم اپنے آئین و قانون کی پائیداری و استحکام،گڈ گوورنس اور منصفانہ طرز حکومت کا قابل رشک سنہری دور گردان سکیں،ان 7 دہائیوں پر محیط عرصے میں کوئی ایسا مثالی عشرہ نہیں جو مستحکم جمہوری سیاسی نظام،منصفانہ معیشت اور عدل اور انصاف پر مبنی آئیڈیالوجی کا حامل ہو، اورجسے بطور رول ماڈل اگلی نسلوں تک منتقل کیا جا سکے-
 1947ء میں پاکستانی منظم قوم تھے، یہی وجہ تھی کہ صدیوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، لاکھوں قربانیوں کے بعد یہ وطن مل تو گیا،لیکن افسوس کہ بصیرت افروز،دوراندیش اور دیانت دار قیادت سے محروم رہے-
 آج ضرورت اس امر کی ہے کہ انفرادی و اجتماعی ہر سطح پر فروعی، گروہی، مسلکی اور نسلی اختلافات اور ہر طرح کی انا،ضد اور ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی اور ملی وحدت کے شعور کو بیدار کیا جائے- آئینی و قانونی حقوق کی پاسداری و وفاداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے، اس کے علاوہ سیاسی وابستگی، جماعتی وابستگی، جذباتی وابستگی،اور ہر طرح کی مفاد پرستی پر قومی مفادات اور ترجیحات کو مقدم رکھا جائے، ملکی قیادت باضمیر،دیانت دار اور مخلص لوگوں کے ہاتھ تھمائی جائے اور اپنی منزل کا تعین کیا جائے، اور پھر آپسی لڑائیوں اور جھگڑوں پر ضائع ہونے والی توانائیوں کو پوری جانفشانی اور محنت سے اس منزل کے حصول کی لگن میں صَرف کیا جائے، جس کے لئے برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنا کٹے پھٹے جسموں کا نذرانہ پیش کیا تھا، اپنا دھن دولت، اور ہر طرح کی متاع عزیز کو نثار کیا تھا-
پھر آئین و قانون کی پامالیوں کا رونا بھی نہیں ہو گا،اور جمہوری اقدار و روایات کو پھلنے پھولنے کا موقع بھی ملے گا، بس ایک یہی رستہ ہے، جس پر چل کر ہم اس مملکت خدادا کو اسلامی فلاحی مملکت بنا کر حقیقی معنوں میں اپنے اجداد اور قائد کی روحوں کو تسکین مہیا کر سکتے ہیں، بصورتِ دیگر یہ جان لینا چاہیے کہ طاقت،اقتدار اور اختیار کی یہ سرد جنگیں دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ محکومیت،مظلومیت اور مقہوریت کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہیں- اور آج اگر ہمیں نہیں تو کل ہماری آنے والی نسلوں کا اس کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑے گا-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :