شدت پسندی کا نیو ورژن

منگل 10 مارچ 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

سوشل میڈیا پر کل سے عورت مارچ کی ایک ویڈیو وائرل ہے، جس میں ایک نوجوان لڑکا بالوں کی چٹیا بنائے ایک پلے کارڈ اٹھائے کھڑا ہے، اس پلے کارڈ پر ایک معنی خیز سا جملہ درج ہے جو کہ کچھ اس طرح سے ہے، '' بہن میری...مرضی اس کی اپنی''۔
 ایک اینکر کے سوال پر اس لڑکے نے جو توجیہات پیش کیں ان کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ موصوف اپنی بہن کو ہر طرح کی خاندانی، سماجی اور حتیٰ کہ مذہبی پابندیوں سے بھی آزاد رکھنے کا مشن لئے اس مارچ میں کھڑے ہیں، اینکر کے استفسار پر نکاح جیسے ضروری عمل کو بھی قدامت پسندی اور پرانے دور کی قصے کہانیوں سے تعبیر کرتے ہوئے اس سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں-
 دیکھنے والوں میں سے کسی نے اسے گالی دی، اور کسی نے بے شرم اور بے غیرت کہا،اسی طرح لبرل حلقوں میں اس کے لئے نہ صرف تعریفی کلمات ادا ہوئے بلکہ اس کے حق میں فیمنسٹی فتوے بھی جاری ہوئے- اب یہاں سوال حق و صداقت کا نہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ذہنی بیماری ہمارے ہاں ہی کیوں جنم لیتی ہے؟ جی ہاں...یہ وہی ذہنی بیماری ہے جسے شدت پسندی یا ایکسٹریمسٹ ازم کہا جاتا ہے، بحیثیت قوم کیوں ہم اپنے عقائد و نظریات میں حد درجہ شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ مذہبی مائنڈ ہو یا لبرل، سیاسی مائنڈ ہو یا کسی بھی طرح کی گروہی،لسانی یا علاقائی ذہنیت....یہ شدّت و انتہا پسندی کا زہر کیوں ہمارے رگ و پے میں سرائیت کر چکا ہے؟ کیوں شدت پسندی کا یہ بیج کبھی تو خود کش حملوں کی صورت میں بارآور ہو کر ہزاروں کے خون خرابے کا باعث بنتا ہے، اور کبھی مسلکی، گروہی،لسانی اور علاقائیت کا شجر بن کر کاٹنا پڑتا ہے- اسی طرح کہیں یہ شدت و انتہا ہمارے سیاسی دماغوں میں گھس کر کسی سیاسی کعبے کے گرد طواف کرتی ہے،اور کبھی مغربی جنسیت کے غلاظت کے ڈھیر سے من و سلویٰ تلاش کرتی ہے ۔

(جاری ہے)

 یہ انتہا پسندی نہیں تو اور کیا ہے کہ حقوقِ نسواں کا علم اٹھا کر نکاح جیسے خوبصورت اور پاکیزہ عمل سے سرعام چھٹکارا پانے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں، یہ کیسے عورتوں کے حقوق کے داعی ہیں جو عورت کو اس کے بھائی جیسے چوکیدار کی محافظت اور پاسبانیت سے محروم کر دینا چاہتے ہیں تاکہ عصمتوں کے لٹیروں کے سامنے کوئی دیوار نہ رہے، یہ کیسے بھائی اور باپ بننا چاہتے ہیں جو کسی معصوم کلی کے جسم کو کسی خونخوار بھیڑئیے کے ہاتھوں شراب اور سگریٹ کے دھویں میں بھنبھبوڑتا ہوا دیکھ کر سکون اور طمانیت محسوس کر سکتے ہیں، یہ کیسے عورت کے مسیحا ہیں، جو عورت کو ''میرا جسم، میری مرضی'' کے تحت اس قدر اختیار دے رہے ہیں کہ وہ چاہے تو کسی بھی وقت اپنے باپ یا اپنے بھائی کے لئے بھی اپنے جسم کی مرضی ظاہر کر دے؟ یا پھر کوئی بھی باپ یا بھائی جب چاہے اپنی بہن یا بیٹی سے اس کے جسم کی مرضی پوچھ کر اس کے ساتھ منہ کالا کر لے؟
 حقیقت یہ ہے کہ اس فیمنسٹ نوجوان کی خواہشات اور اس کی طرح کے سینکڑوں سماج و مذہب بیزار نعروں سے روح لرز اٹھی ہے، اور جس طرح سے ایک مخصوص طبقے نے ان نظریات میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ شدت پسندی کا یہ نیا ورژن ہماری تہذیبی و معاشرتی اثاثے کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا، کیونکہ ان لوگوں کے شانے پر کسی پہاڑ کے غاروں میں رہنے والے محدود وسائل کے حاملین کا نہیں بلکہ بااختیار،بااقتدار اور مراعات یافتہ طبقے کا ہاتھ ہے،اور تاریخ گواہ ہے کہ وسائل کی مقناطیسیت چھوٹے موٹے ذرات کو اپنی طرف کھینچ کر اپنی قوت و طاقت میں اضافے کا باعث بنتی ہے-
 یقیناً آج ایک بار پھر جہالت اور ہٹ دھرمی کے زخموں سے چور اس قوم کے سامنے شدت پسندی اور انتہا پسندی کی ایک نئی نسل کا ناگ اپنے پھن پھلائے کھڑا ہے، جو کسی بھی وقت اس ارتعاش زدگی سے بڑھ کر کسی بڑے بھونچال کا باعث بن سکتا ہے- لہذا اربابِ اقتدار سے دردمندانہ اپیل ہے کہ خدارا اس جنسی شدت پسندی کے نئے ورزن کا بروقت نوٹس لیں، ایسا نہ ہو کہ بعد میں کسی اور ضربِ عضب یا ردالفساد جیسا منفرد کارنامہ سرانجام دینا پڑ جائے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :