کرونا وائرس، ویکسینیشن اور افوائیں

جمعہ 2 جولائی 2021

Tariq Zaman

طارق زمان

پاکستان میں جب بھی کسی فلاحی کام یا آگاہی مہم کا آغاز کیا جائے تو اس کی حمایت کم اور مخالفت زیادہ کی جاتی ہے۔ انسدادِ پولیو ، خاندانی منصوبہ بندی اور بچیوں کو تعلیم دینے کی مہمات جس کی ذندہ مثالیں ہیں۔ 2019 کے آخر اور 2020 کی ابتداء میں جب کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیا تو روزانہ ہزاروں انسانی جانیں موت کے منہ میں جانے لگیں۔

  پاکستانیوں نے اسے بھی اغیار کی سازش قرار دیا۔ طرح طرح کی منطق بیان کرنے لگے۔ زلف تراش کے پاس اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے گاہک ، پبلک ٹرانسپورٹ کے مسافر ، شادی بیاہ اور دیگر نجی تقریبات کے شرکاء اپنی ماہرانہ رائے دینے کے لیے موقع کی تاک میں رہتے اور کرونا وائرس کو فتنہء دجال کی علامت و یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دینے میں طرح طرح کے دلائل دیتے اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنے والوں کا تمسخر بھی اڑاتے۔

(جاری ہے)


کچھ ہی وقت میں اس وحشی وائرس نے سرحدیں عبور کرتے ہوئے ادھر بھی خوف و ہراس پھیلا دیا۔ ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا کہ کرونا وائرس کو یہاں پہنچانے کا ذریعہ کون بنا۔ مختلف مکاتب و مسالک کے پیروکاروں نے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ وائرس نے سب کو بلاامتیاز پاکستانی سمجھا اور جو برابر آیا اسے برابر کیا۔ کرونا وائرس کو تسلیم نہ کرنے اور اسے جھوٹ و سازش قرار دینے والے اب سنا مکی کا قہوہ، کچا پیاز، لیموں کا رس اور پتا نہیں کیا کچھ دوا و نسخے تجویز کرتے ہوئے وائرس سے متاثرہ مریض کو ہسپتال لے جانے کی حوصلہ شکنی کرنے لگے پھر حالات اس قدر گھمبیر ہوئے کہ حکومت کو لاک ڈائون کی طرف جانا پڑا جس سے پورا ملک مفلوج ہو کر رہ گیا اور ہر طبقہ نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا۔


آزمائش سے بھرپور اور کٹھن وقت بھی تیزی سے گزرتا گیا دنیا بھر کے تحقیقی اداروں نے دوا کے لیے دوڑ دھوپ شروع کی اور کئی ممالک نے ویکسین تیار کر لی۔ مختلف ممالک کی حکومتوں نے ویکسینیشن کے عمل کا فوری آغاز کیا تو ان کے عوام نے خود کو موذی وائرس سے تحفظ دینے کے لیے بغیر کسی حیل و حجت کے ویکسینیشن کروانی شروع کی۔ ہماری حکومت نے بھی اچھے اور برے وقت کے دوست ملک چین کے تعاون سے ویکسین تیاری کے عمل کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک سے کچھ خوراکیں خرید لائیں۔

تو سوشل میڈیا پر افواہوں کا ایک طوفان امڈ آیا۔ جو ویکسین لگوائے کا وہ مگرمچھ بن جائے گا، مرد و خواتین بانجھ ہوں گے ، عورتوں کی داڑھی اور مونچھیں نمودار ہونے، جسم میں مقناطیسی خاصیت، خودکار چپ داخل ہونے، ویکسین لگوانے والے کی دو سال بعد موت واقعہ ہو جانے اور تمام سرکاری ملازمین کو ویکسین کے ذریعے موت کی نیند سلا کر نئی کروڑ نوکریوں کا حکومتی وعدہ ایفا کرنے جیسی دیگر کئی افواہیں گردش کرنے لگیں جو  سلسلہ تاحال جاری ہے۔


تاہم حکومت نے تیزی سے مرحلہ وار ویکسینیشن کا عمل جاری و ساری رکھا ہوا ہے اور شہریوں کو ویکسینیشن کا پابند بنانے کے لیے مختلف تجاویز اور آپشنز زیر غور ہیں۔ سوشل میڈیا اور نجی محافل میں اب بھی افواہ ساز عناصر خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں۔
ویکسین پر جو اعتراضات اٹھا کر افواہ سازی کو تقویت دی جا رہی ہے وہ کچھ لمحات کے لیے انسان کو سوچنے پر بھی مجبور کر دیتے ہیں۔

جیسے یہ کہا جارہا ہے کہ کسی بھی ویکسین کی تیاری اور تجربات کے لیے کئی سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے لیکن کرونا وائرس کی تمام ویکسینز کی تیاری اور تجربات انتہائی قلیل مدت میں مکمل کیے گئے ہیں۔ اس لیے مضر اثرات مستقبل قریب میں ہی جانچے جائیں گے جو انتہائی خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔ برطانوی آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ اسٹرازینیکا کے مختلف مضر اثرات نوٹ  کئے گئے ہیں جن میں خون کے لوتھڑے بننے یا بلیڈنگ ہونے جیسے ضمنی اثرات جو ہزاروں میں سے محض چند لوگوں میں سامنے آئے ہیں کو متعلقہ اداروں نے تسلیم بھی کیا ہے۔

اس طرح کی دیگر کئی باتیں جو افواہیں بھی ہو سکتی ہیں عام آدمی کے لیے تذبذب اور بے چینی کا باعث بن رہی ہیں۔       حکومت نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین ایسٹرازینیکا کا استعمال محدود کرکے سرکاری سطح پر چین کی سائنو فارم، کنسائنو اور ساینوویک کو استعمال کی اجازت دی ہے جبکہ نجی سطح پر روس کی اسپوتنک فائیو بھی استعمال کی جا رہی ہے۔

پاکستان نے چائنہ ویکسین سے ہی پاک ویک بھی تیار کر لی ہے جس کا چند روز میں ملک بھر کے اندر استعمال شروع کرنے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔
جب سے ویکسین لگوانے کا ارادہ کیا تو ویکسینیشن کے موافق و مخالف دلائل کو بڑے انہماک سے سنا اور غور سے پڑھا ہے لیکن جب یہ سنا کہ دو سال بعد موت واقع ہو جائے گی تو یک دم ارادہ تبدیل کیا۔ کچھ ہی دیر بعد ذہن میں خیال آیا کہ زندگی کی تو ویسے بھی کوئی ضمانت یا تحفظ نہیں اگلے ہی لمحے سانسیں ساتھ چھوڑ جائیں تو ان کو واپس لانا بس کی بات نہیں ہے۔

پھر ویکسین کی پہلی خوراک لگوا کر اطمینان ، خوف اور تذبذب کے امتزاج سے بھرپور دو روز گزارے اور نارمل حالت میں واپسی ہوئی۔
افواہ سازوں کو روزمرہ حالات و واقعات دیکھ کر سمجھنا چاہیے کہ یہود و نصارٰی اس قوم میں چپ نصب کرکے کیا بگاڑ پیدا کریں گے جو پہلے ہی مختلف معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سماجی طور پر خراب حالوں ، پستی اور گراوٹ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

پوری دنیا کے لوگ ویکسین لگوا رہے ہیں جن میں اسرائیل، امریکہ، بھارت اور چائنہ سمیت تمام ہمارے دشمن و دوست شامل ہیں کیا ان کو جانیں عزیر نہیں؟ جو خدشات ہماری قوم میں پائے جا رہے ہیں دیگر اقوام ان خدشات و پریشانیوں سے کیوں مبرا ہیں؟ سب سے پہلے ویکسینیشن کروانے والے مختلف سربراہان مملکت ، افواج ، کاروباری شخصیات ، سائنسدانوں اور سیاستدانوں کو اس قسم کے خطرات کیوں لاحق نہیں ہیں جن کی وجہ سے عوام کا سکون غارت کیا جا رہا ہے؟
انسانی فلاح کی ہر مہم کو متنازعہ بنانے والے ان نام نہاد دانشوروں سے یہ بھی درخواست ہے کہ اگر واقعی ویکسین مضر ہے تو کرونا وائرس کا کوئی توڑ یا علاج بتائیں، کوئی حل سامنے لائیں، قابل عمل تجاویز پیش کریں اور کسی دوا کی دریافت کے لیے تحقیقی میدان میں آئیں تاکہ بقول ان کے اغیار کی تیار کردہ اور مضر صحت ویکسین لگوانے کا سیاپا ہی ختم کریں۔

اگر یہ نہیں کر سکتے تو خدارا اپنی بیمار و منفی سوچ و خیالات دوسروں پر تھوپ کر عوام کو نفسیاتی مریض نہ بنائیں۔ فی الحال وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے واحد حل ویکسین ہی ہے جو سب کو لگوانی پڑے گی تاکہ اس موذی وائرس سے نجات حاصل کرکے معمول کی زندگی کی طرف لوٹا جا سکے۔ اللّہ تعالیٰ سارے بنی نوح انسان کو وبائی امراض اور آفات سے محفوظ رکھے۔ آمین-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :