روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاؤنٹس اور سمندر پار پاکستانی

اتوار 11 اکتوبر 2020

Urooj Asghar

عروج اصغر

اوورسیز پاکستانی, پاکستانی معیشت میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ھمارے معاشی اعشاریے بتاتے ہیں کہ ھم ایک درآمدی ملک ہیں اور ایسی صورت میں زرمبادلہ پہ انحصار ایک فطری بات ہے جو مسابقت کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے سارے ممالک کا مسئلہ ہے۔ مرکزی بنک کے ذخائر میں ساٹھ فیصد تک مدد دینے والے بیرون ملک پاکستانی بالخصوص خلیجی ممالک میں عارضی رہائش پذیر پاکستانی ھمیشہ سے مکانوں اور پلاٹوں والی معیشت کے لاغر ترین اور کم ترین فائدہ مند حصے میں سرمایہ کاری کرتے رھے ہیں جس کی وجہ ھماری غیر کاروباری اور غیر ترقیاتی سوچ اور علم و ھنر سے دوری اور جدید دور کے تقاضوں سے یکسر دوری ہے۔


حکومت کے چند اچھے اقدامات میں سے حالیہ “روشن پاکستان اکاؤنٹس” بلاشبہ ایک بہترین اقدام ہے خاص طور پر وباء کے دنوں میں آمدورفت پر مکمل پابندی نے ھنڈی حوالہ اور دوسرے متبادل زرائع کو نقصان پہنچایا اور FATF کے مجوزہ قوانین کے کسی حد تک اطلاق نے مئی سے جولائی تک ترسیلات کی مد میں 31% اضافہ اور اگست میں 24% أضافه دکھایا جو اس طرزِ بینکنگ کیلئے حوصلہ افزاء ہے ۔

(جاری ہے)


ان کھاتوں سے بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی ملکی اور غیر ملکی ضروریات پوری کرسکیں گے
پیسے ملکی بینکوں میں رھیں گے اور تمام ضروریات زندگی کیلئے دستیاب ھونگے، ساتھ ساتھ ملک میں موجود سرمایہ کاری کے دوسرے ذرائع جیسے ، سکوک بانڈ، حکومتی بانڈ، اسٹاک مارکیٹ کے حصص، ریئل سٹیٹ اور نیا پاکستان سیکیورٹیز میں حصہ ڈال سکیں گے ۔
اس کے علاوہ مختلف کرنسیوں میں سہولت کی وجہ سے بہت سارے معاملات انہیں کھاتوں کے ذریعے طے پا سکیں گے اور حکومت کو اس مد میں نہ صرف ایک اچھی آمدنی متوقع ہے بلکہ معیشت کو دستاویزی بنانے میں بھی مدد ملے گی ۔


سمندر پار پاکستانی اپنی ترسیلات نہ صرف بھیج سکیں گے بلکہ منگوا بھی سکیں ، بلوں کی ڈائریکٹ ادائیگی پاکستان میں موجود خاندانوں کیلئے وقت کے ضیاع اور تاخیری ادائیگیوں سے بچت ھوگی اور اے ٹی ایم کارڈ کی دونوں طرف سہولت کے ساتھ ساتھ کھاتے پر بہتر منافع اب اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ھم حکومت کی اس کوشش کو سراھیں اور اپنے اکاؤنٹس کھلوا کر ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں
ایک اندازے کے مطابق حکومت کو ان کھاتوں کی مد میں اضافی بیس بلین ڈالر کی سسٹم میں آمد متوقع ہے اور دو بلین ڈالر کی اضافی آمدنی متوقع ہے جو کہ حاصل ھونے والے ٹیکس کے علاوہ ہے ۔

یاد رھے کہ صرف دس فیصد ٹیکس خالص منافع پر ہے اور جاری کھاتوں اور سہولیات پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔
ان معلومات کو بنیاد بنا کر سمندر پار پاکستانیوں کو چند دوسری سہولیات بھی دی جا سکتی ہیں جیسے اندرون ملک سرمایہ کاری یا مخصوص مدت کے بعد واپسی پر ٹیکس کی چھوٹ اور اس طرح کی دوسری مراعات
اسی طرح اضافی سامان لانے لے جانے کی سہولت، کرایوں کی مد میں چھوٹ یا پھر مفت انشورنس اور پاکستان پوسٹ کے ذریعے درآمدات میں سہولت وغیرہ جس سے غیر ملکی پاکستانی ملکی مصنوعات کی ترویج میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔


مگر یاد رہے کہ اس نظام کو ایک مربوط طریقے سے ایف بی آر، نادرا اور دوسرے اداروں سے منسلک کرنا ھوگا تاکہ منی لانڈرنگ نہ ھو سکے ورنہ اس کے خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں
یہاں میں اپنی ایک ذاتی سوچ شامل کرنا چاھوں گی کہ ان بینک اکاؤنٹس کا دائرہ کار اندرون ملک بھی بڑھایا جائے اور ان سے بیرون ملک سرمایہ کاری کی سہولت بھی دی جائے تاکہ غیر قانونی طور پر باھر جانے والے پیسے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ساتھ ساتھ ان کھاتے داروں کو ترقیاتی منصوبوں میں بھی شامل کیا جائے مثلاً دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے بجلی کی فی یونٹ قیمت چالیس فیصد تک کم ھو جائے گی ۔

اسے پینتیس فیصد تک رکھ کر فی یونٹ پانچ فیصد منافع سرمایہ کاروں کو ادا کیا جائے ۔ جس سے نہ صرف حکومت کے اخراجات میں کمی ھوگی بلکہ قرضوں اور سود کی ادائیگی بھی کم ھوگی اور عوام الناس ملکی تعمیر و ترقی کا حصہ بن کر بہتر احساس ذمہ داری محسوس کریں گے ۔
منزل کی طلب راسخ ھو اور یقینِ عروج
اک چراغ بھی غنیمت ہے رات بھر کیلئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :