
اپنے حصے کی شمع جلاتے جاؤ
منگل 25 مئی 2021

اسامہ منور
انسان کو پہلے پیدا کیا گیا جبکہ مذہب بعد میں بنایا گیا پھر جیسے جیسے ضرورت پڑتی گئی انسانیت کی فلاح کے لیے مذہب میں تبدیلیاں ہوتی گئیں. دنیا کے بڑے مذاہب میں اسلام، عیسائیت، یہودیت، پارسیت، بدھ مت، ہندو مت اور سکھ مت شامل ہیں. اول الذکر تینوں مذاہب الہامی مذاہب ہیں. انسان کی پیدائش کے بعد سب سے پہلے اسے جس چیز کی ترغیب دی گئی وہ انسانیت اور حسنِ سلوک کی ترغیب ہے. تمام عالمی مذاہب متفقہ طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ انسانیت پہلے دیکھی جائے اور مذہب بعد میں، وہ الگ بات ہے کہ مذاہب کے ماننے والے صرف مذہب کے ہی شیدائی ہیں یا ان میں انسانیت بھی ہے.
یہودی مذہب کے ماننے والے ہر طرح سے انسانیت کھو چکے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر وڈیروں کے سامنے انسانیت کی تذلیل بھی کر رہے ہیں اور قتل عام بھی جاری ہے مگر وڈیروں کو امریکہ میں مارا جانے والا ایک کالا امریکی تو یاد ہے مگر فلسطین و کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پر شہید ہونے والے مکمل طور پر بھول چکے ہیں کیونکہ وڈیروں کی دور کی نظر کمزور ہے.
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
فلسطین اور اسرائیل کا معاملہ جان بوجھ کر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے. اقوام متحدہ نے امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ بندی کی اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسرائیل کی ہر ممکن مدد کی جس کا نتیجہ مئی 1948 میں اسرائیل کی شناخت کی صورت نکلا. جبکہ یہ سازش تو دو صدیاں قبل ہی رچائی جا چکی تھی جس کی ابتدا نیپولین بونا پارٹ نے 1799 میں کی اور یہودیوں کا پہلا خیرا خواہ ہونے کا ثبوت دیا. پھر مکاریوں کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس کو تکمیل کی جانب لے جایا گیا اور 1882 میں فلسطینی سرزمین پر پہلی یہودی بستی قائم ہوئی. چونکہ مسلمان بنیادی طور پر شریف النفس اور درد دل رکھنے والی قوم ہے جبکہ یہودی بنیادی طور پر ایک شاطر، چالاک اور مکار قوم ہے لہٰذا ہر دفعہ وہ مسلمانوں کو چکمہ دے جاتے ہیں. جنگ عظیم اول 1914 تا 1919 کے بعد اس شیطانی تحریک میں تیزی آ گئی. وڈیروں نے 1915 میں یہ تجویز دی کہ فلسطینی سر زمین پر یہودیوں کا ملک بنایا جائے جس کی منظوری 1922 میں عالمی ادارے لیگ آف نیشن نے دے دی.
پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست نے صیہونیت کو مزید تقویت دی اور برطانیہ نے فلسطین کو اجاڑنے میں یہودیوں کا پورا پورا ساتھ دیا بیسویں صدی کے اوائل میں ہی آہستہ آہستہ یہودی نقل مکانی کر کے فلسطین میں رہنا شروع ہو گیے 1920 سے 1940 تک اس تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور دوسری جنگ عظیم 1939 تا 1944 کے درمیانی عرصہ میں یورپ سے ہالو کاسٹ سے بچ کر آنے والے یہودی تیزی سے فلسطین میں قیام پذیر ہونے لگے. یہودی پہلے ہی ہٹلر سے کتوں جیسا سلوک کروا کر آئے تھے اب انھوں نے خود کو بہتر طریقے سے مضبوط کیا اور فلسطین میں براہ راست مداخلت شروع کر دی. فلسطینیوں نے خدا خوفی کر کے رہنے کے لیے جگہ دے دی کہ اور کہاں جائیں گے مگر ان بیچاروں نے کب سوچا تھا کہ جنھیں یہ دودھ پلا رہے ہیں ایک دن یہی سانپ فلسطینیوں کو ہی ڈسنا شروع کر دیں گے.
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے یہودیوں کا ہر طرح سے ساتھ دیا اور اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے چند سال بعد ہی 1947 میں قرار داد پیش کی. 23 ستمبر 1947 کو اقوام متحدہ نے ریزویشن 181 کے تحت یہودی اور عرب قوم کو الگ کر کے بیت المقدس کو خود مختار بنا دیا اور پھر 15 مئی 1948 کو اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ اور سوویت یونین کی حمایت سے اسرائیل کے ناپاک وجود کو باقاعدہ تسلیم کر لیا گیا. جس کے بعد فلسطینیوں کا جینا دو بھر ہو گیا. گزشتہ 73 برس سے لاکھوں فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں جبکہ لاکھوں ہی نقل مکانی کر چکے ہیں جو مصر غزہ کی پٹی اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہیں. الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطین پر قبضہ کرنے کے دو سال بعد ہی صیہونی فوج نے ستر قتل عام کے واقعات میں 15 ہزار فلسطینیوں کو شہید کر دیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے.
اسرائیل تعداد میں پچاسی لاکھ ہیں جبکہ مسلمان ایک عرب سے بھی زیادہ ہیں مگر دکھ اس بات کا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی اکثریت چوڑیاں پہن کر بیٹھی ہے جبکہ فلسطینی گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں. جو مسلمان کسی دور میں جسد واحد کی طرح تھے اب بکھر چکے ہیں، بٹ چکے ہیں، فرقوں میں، خرافات میں، روایتی بھول بھلیوں میں کھو چکے ہیں. اگر کوئی حکمران انصاف مانگے بھی تو اقوام متحدہ سے مانگ رہا ہے جو خود ہی ان تمام فسادات کی جڑ ہے.چھوڑ دیں اب اقوام متحدہ کو، اسلامی ممالک مل کر اپنی اسلامی اقوام متحدہ بنائیں اور خود مختار ہو جائیں کیونکہ یہود و نصارٰی کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے اور اس طرح کے فسادات کا علاج صرف جہاد ہے مگر جہاد کے لیے جگر چاہیے، چوڑیاں پہننے والے بندوقیں کیسے اٹھائیں گے، یہ بس فلیکس اور بینر اٹھا سکتے ہیں اور کشمیر کی طرح فلسطین کے لیے بھی بس دعا ہی کر سکتے ہیں جبکہ اب دعا سے زیادہ دوا کی ضرورت ہے
اب ہر ایک کو اپنے حصے کی تلوار اٹھانے کی ضرورت ہے، اپنے حصے کی شمع جلانے کی ضرورت ہے
(جاری ہے)
کوئی بھی مذہب قطعی طور پر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ انسانیت کو خوار کیا جائے اور اس کی تذلیل کی جائے. بلکہ مذکورہ بالا تمام مذاہب تمام تر اختلافات کے باوجود بھی امن و آشتی اور انسانیت کا درس دیتے ہیں.
یہودی مذہب کے ماننے والے ہر طرح سے انسانیت کھو چکے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر وڈیروں کے سامنے انسانیت کی تذلیل بھی کر رہے ہیں اور قتل عام بھی جاری ہے مگر وڈیروں کو امریکہ میں مارا جانے والا ایک کالا امریکی تو یاد ہے مگر فلسطین و کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پر شہید ہونے والے مکمل طور پر بھول چکے ہیں کیونکہ وڈیروں کی دور کی نظر کمزور ہے.
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
فلسطین اور اسرائیل کا معاملہ جان بوجھ کر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے. اقوام متحدہ نے امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ بندی کی اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسرائیل کی ہر ممکن مدد کی جس کا نتیجہ مئی 1948 میں اسرائیل کی شناخت کی صورت نکلا. جبکہ یہ سازش تو دو صدیاں قبل ہی رچائی جا چکی تھی جس کی ابتدا نیپولین بونا پارٹ نے 1799 میں کی اور یہودیوں کا پہلا خیرا خواہ ہونے کا ثبوت دیا. پھر مکاریوں کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس کو تکمیل کی جانب لے جایا گیا اور 1882 میں فلسطینی سرزمین پر پہلی یہودی بستی قائم ہوئی. چونکہ مسلمان بنیادی طور پر شریف النفس اور درد دل رکھنے والی قوم ہے جبکہ یہودی بنیادی طور پر ایک شاطر، چالاک اور مکار قوم ہے لہٰذا ہر دفعہ وہ مسلمانوں کو چکمہ دے جاتے ہیں. جنگ عظیم اول 1914 تا 1919 کے بعد اس شیطانی تحریک میں تیزی آ گئی. وڈیروں نے 1915 میں یہ تجویز دی کہ فلسطینی سر زمین پر یہودیوں کا ملک بنایا جائے جس کی منظوری 1922 میں عالمی ادارے لیگ آف نیشن نے دے دی.
پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست نے صیہونیت کو مزید تقویت دی اور برطانیہ نے فلسطین کو اجاڑنے میں یہودیوں کا پورا پورا ساتھ دیا بیسویں صدی کے اوائل میں ہی آہستہ آہستہ یہودی نقل مکانی کر کے فلسطین میں رہنا شروع ہو گیے 1920 سے 1940 تک اس تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور دوسری جنگ عظیم 1939 تا 1944 کے درمیانی عرصہ میں یورپ سے ہالو کاسٹ سے بچ کر آنے والے یہودی تیزی سے فلسطین میں قیام پذیر ہونے لگے. یہودی پہلے ہی ہٹلر سے کتوں جیسا سلوک کروا کر آئے تھے اب انھوں نے خود کو بہتر طریقے سے مضبوط کیا اور فلسطین میں براہ راست مداخلت شروع کر دی. فلسطینیوں نے خدا خوفی کر کے رہنے کے لیے جگہ دے دی کہ اور کہاں جائیں گے مگر ان بیچاروں نے کب سوچا تھا کہ جنھیں یہ دودھ پلا رہے ہیں ایک دن یہی سانپ فلسطینیوں کو ہی ڈسنا شروع کر دیں گے.
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے یہودیوں کا ہر طرح سے ساتھ دیا اور اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے چند سال بعد ہی 1947 میں قرار داد پیش کی. 23 ستمبر 1947 کو اقوام متحدہ نے ریزویشن 181 کے تحت یہودی اور عرب قوم کو الگ کر کے بیت المقدس کو خود مختار بنا دیا اور پھر 15 مئی 1948 کو اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ اور سوویت یونین کی حمایت سے اسرائیل کے ناپاک وجود کو باقاعدہ تسلیم کر لیا گیا. جس کے بعد فلسطینیوں کا جینا دو بھر ہو گیا. گزشتہ 73 برس سے لاکھوں فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں جبکہ لاکھوں ہی نقل مکانی کر چکے ہیں جو مصر غزہ کی پٹی اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہیں. الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطین پر قبضہ کرنے کے دو سال بعد ہی صیہونی فوج نے ستر قتل عام کے واقعات میں 15 ہزار فلسطینیوں کو شہید کر دیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے.
اسرائیل تعداد میں پچاسی لاکھ ہیں جبکہ مسلمان ایک عرب سے بھی زیادہ ہیں مگر دکھ اس بات کا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی اکثریت چوڑیاں پہن کر بیٹھی ہے جبکہ فلسطینی گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں. جو مسلمان کسی دور میں جسد واحد کی طرح تھے اب بکھر چکے ہیں، بٹ چکے ہیں، فرقوں میں، خرافات میں، روایتی بھول بھلیوں میں کھو چکے ہیں. اگر کوئی حکمران انصاف مانگے بھی تو اقوام متحدہ سے مانگ رہا ہے جو خود ہی ان تمام فسادات کی جڑ ہے.چھوڑ دیں اب اقوام متحدہ کو، اسلامی ممالک مل کر اپنی اسلامی اقوام متحدہ بنائیں اور خود مختار ہو جائیں کیونکہ یہود و نصارٰی کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے اور اس طرح کے فسادات کا علاج صرف جہاد ہے مگر جہاد کے لیے جگر چاہیے، چوڑیاں پہننے والے بندوقیں کیسے اٹھائیں گے، یہ بس فلیکس اور بینر اٹھا سکتے ہیں اور کشمیر کی طرح فلسطین کے لیے بھی بس دعا ہی کر سکتے ہیں جبکہ اب دعا سے زیادہ دوا کی ضرورت ہے
اب ہر ایک کو اپنے حصے کی تلوار اٹھانے کی ضرورت ہے، اپنے حصے کی شمع جلانے کی ضرورت ہے
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.