کرونا سے ڈرنا نہیں !!! لڑنا ہے

اتوار 7 جون 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

کرونا کی وباء کی ابتداء ہی میں حکومتی اداروں نے ایک نعرہ لگایا تھا کہ ’کرونا سے ڈرنا نہیں!! لڑنا ہے ‘ بہت ممکن ہے کہ اس نعرہ کا مقصد عوام الناس کو ہمت دلانا اور اس جان لیوا وباء کے مقابلہ کیلئے ذہنی طور پر تیار کرنا ہو، مگر وہ شاید یہ بھول ہی گئے تھے کہ ان کا پالا کس قوم سے ہے، پاکستانی وہ ہیں جو ہر گھڑی کسی نہ کسی سنسنی کی چاہ میں رہتے ہیں۔

اور اگر بات ہو لڑنے کی وہ بھی قومی سطح پر تب تو سمجھیں کہ سب پر لازم ہوجاتا ہے کہ بس لڑنا ہے، اب چاہے سامنے کوئی بھی ہو۔ یہی کچھ بیچارے کرونا کے ساتھ ہوا۔ لوگوں نے کرونا سے لڑنے کیلئے کمر کسی ہوئی ہے اور اب بھی پوری جوانمردی سے کرونا کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں۔ نہ کوئی ڈر نہ کوئی پریشانی اور نہ ہی احتیاط۔

(جاری ہے)

پاکستانی قوم تو سامنے نظر آنے والے بڑے بڑے خطرات سے نہیں ڈرتے تو یہ تو بیچارہ کرونا تو نظر ہی نہیں آتا، تو پھر اس سے کیا ڈرنا۔

لہذا سب لگے ہوئے ہیں اپنے اپنے مشاغل میں، نہ کوئی سماجی فاصلے کی پرواہ، نہ ماسک کی پابندی، نہ ہاتھ دھونے کی ضرورت، اور بات ہاتھ دھونے کی ہو تو ہم بس ہاتھ دھو کر پیچھے ہی پڑتے ہیں، ورنہ کبھی شیروں کے بھی کبھی ہاتھ منہ دھلے ہیں۔
ان سب غیر سنجیدہ رویوں کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا، یعنی بد ترین تباہی، جیسا کہ میں اپنے گذشتہ کالم میں اس بات کی نشاندہی کرچکا تھا کہ یہ لاک ڈاؤن میں بہت زیادہ نرمی، ضرور کوئی گل کھلائے گی اور وہی ہوا بھی، لوگوں نے خریداری کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ، وہ غریب قوم جو ایک کلو آٹے کی بھی محتاج ہوگئی تھی، پندرہ ٹریلین کی خریداری کر بیٹھی وہ بھی کچھ اس طرح کہ بازار، مالز، راستے سب لوگوں سے کچھ اسطرح بھر گئے کہ کھوے سے کھوے چھلنے کی مثال بھی پھیکی پھیکی سی لگنے لگی۔

وہ گھمسان کا رش پڑا کہ نہ عورت کو خیال تھا کہ ساتھ کون ہے نہ مردوں کو معلوم تھا کے وہ کس کے ساتھ جڑ جڑ کر چل رہے ہیں۔ بس ایک ہی دھن تھی کہ عید کی خریداری کرنی ہے، چاہے اس کے بدلے جان ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
کرونا کی وباء کو لیکر من حیث القوم ہمارا آج تک کا رویہ نہایت ہی غیر سنجیدہ اور نامناسب رہا ہے۔ ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں لگا سکے۔

اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہمارے کرونا سے متاثرین کی تعداد چین سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ احتیاطی تدابیر نہ صرف ان کیلئے بلکہ ان سے وابستہ سب ہی کے لئے فائدہ مند اور مناسب ہیں۔ ہم تو کیونکہ خطروں کے کھلاڑی ہیں لہذا ایک ایسی شہ سے ڈرجانا جو نظر بھی نہ آتی ہو، نہایت ہتک و شرمندگی کی بات ہے۔
ہم اپنی کم علمی اور نادانی میں کرونا کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں ، اس کی بہت چھوٹی سی مثال کچھ اس طرح لی جا سکتی ہے کہ بلیاں چاہے وہ بڑی ہوں یا چھوٹی اپنے شکار کو بے خبر رکھ کر اور اچانک حملہ کرکے اپنا شکار بنالیتی ہیں، اور شکار کو گردن سے دبوچ کر اس کا دم گھونٹ دیتی ہیں، جس سے شکار کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

کرونا بھی بالکل اسی طرح دھیرے دھیرے بہت خاموشی سے اپنے شکار کے قریب آتا رہتا ہے، یعنی متاثرہ شخص کو قریب ایک ہفتے تک اندازہ بھی نہیں ہوپاتا کہ اس کے ساتھ کچھ بہت ہی برا ہونے والا ہے، وہ مزے سے اپنی خرمستیاں جاری رکھتا ہے کہ اچانک کرونا اسے گردن سے پکڑ لیتا ہے اور اس کا دم گھونٹ کر اس کی جان لے لیتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جس طرح بلیوں کی دس میں سے ایک کوشش بارآور ہوپاتی ہے بالکل اسی طرح کرونا کے دس میں سے نو شکار بچ جاتے ہیں لیکن جو اس کی گرفت میں آجاتا ہے اس کی حالت بلی کے منہ میں پھنسی چٹریا جیسی ہی کردیتا ہے، انسان بالکل بے بس و لاچار ہو جاتا ہے۔

خود سے سانس بھی نہیں لے پاتا، اور ہمارے ہاں تو وسائل کا ویسے ہی فقدان ہے، تو بہت سے بیچارے تو طبی امداد کے ملنے تک اس حد تک پہنچ چکے ہوتے ہیں جہاں سے لوٹنا ممکن نہیں رہتا۔
لہذا موقع کی رنگینی اور حالات کی سنگینی کا شکار نہ ہوں ، نہ ہی حکومتی اعلان اور نفاز قانون کا انتطار کریں ، بلکہ اپنے لئے اپنے پیاروں کیلئے، ایک صحتمند اور محفوظ زندگی گزارنے کی تیاری کریں۔

اپنی اور اپنے پیاروں کی خوشگوار اور صحتمند زندگی کا دارومدار آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اس وباء سے آگہی اب خاص و عام تک پہنچ چکی ہے، کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا قریب قریب سب ہی خوب اچھے سے جان چکے ہیں۔ تو کیوں جانتے بوجھتے اپنی اور اپنے دوستوں رشتہ داروں کی زندگیاں داؤ پر لگائی جائیں۔ لہذا اس ضمن میں سب سے بہترین لائحہ عمل احتیاط کرنا اور تجویز کردہ طریقوں پر عمل پیرا رہنا ہے۔


وہ کیا ایسی تدابیر ہیں جن کو اپنا کر نا صرف کرونا سے بچا جاسکتا ہے بلکہ صحتمند اور خوشگوار زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے سماجی فاصلہ کو یقینی بنانا، یعنی ہر جگہ ہر وقت لوگوں کے درمیان فاصلہ یقینی طور پر برقرار رکھا جائے۔ جب بھی گھر سے نکلیں تو فیس ماسک ضرور پہن کر نکلیں۔ فیس ماسک کے باوجود سماجی فاصلہ قائم رکھیں۔ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے بالکل اجتناب کریں۔

کسی بھی حالت میں ہاتھ ملانے یا بغلگیر ہونے کی کوشش نہ کریں۔ بار بار ہاتھ دھونے کی عادت بنالیں ، جتنی بار باہر جائیں، یا باہر کی چیزوں کو ہاتھ لگائیں، یعنی سودا سلف لیکر آنے کے بعد سب سے پہلے ہاتھوں کو صابن سے بہت اچھی طرح دھو لیں۔ وہ بازاری اشیاء جن پر زرا بھی آلودہ ہونے کا شبہ ہو، اس کی جراثیم کشی ضرور کرلیں۔ کھانے پینے میں غذائیت سے بھرپور اور سادہ غذا کو ترجیح دیں، پھلوں کا استعمال خوب کریں۔

روزانہ چھ گھنٹے کی نیند ضرور لیں۔ چہل قدمی کو اپنا معمول بنا لیں۔ ہلکی پھلکی ورزش بھی ضرور کریں ، یہ سب آپ کے جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں سازگار ثابت ہوں گے اور آپ آسانی سے اس وباء کے شکار نہیں بن سکیں گے۔ لوگ کیا سمجھتے ہیں کے یہ بھی موسمی بخار کی طرح ختم ہو جائے گا اور ہم پھر سے وہی نارمل زندگی گزارنے لگیں گے، تو جناب یہ محض خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

کیونکہ اس کے وباء لمبے عرصے تک رہنے کی امید کی جا رہی ہے۔ لہذا ہمیں اپنی زندگی کے روز و شب کو اس کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ورنہ خطرہ سر پر ہر وقت منڈلاتا رہے گا۔
افواہوں پر بالکل بھی دھیان نہ دیں کیونکہ حالات اور ماحول کو پریشان کن اور تکلیف دہ بنانے میں ان افواہوں اور جھوٹی خبروں کا بڑا ہاتھ ہے جن کی وجہ سے لوگ بلاوجہ پریشان ہیں، جیسے بہت سے لوگ یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ یہ کوئی وباء ہے ہی نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کی سازش ہے۔

لہذا لوگ یہ بات سن کر بد احتیاطی اختیار کرلیتے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں ، اسی طرح یہ خبر بھی خوب گردش میں ہے کہ یہ وباء بہت ہی خطرناک اور جان لیوا ہے، جو ماحول کو عجیب ڈراؤنا اور بھیانک بنا دیتی ہے مگر حقیقت سے یہ بھی بہت دور ہے۔ جبکہ ہمیں تو حقیقت نظری سے احتیاط کرنی ہے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں۔ اگر صحتمند اور خوشگوار زندگی گزارنی ہے۔ تو بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت ہی سنجیدگی سے اس وباء کا مقابلہ اپنی زندگی کو احتیاط اور پرہیز کے سانچے میں ڈھال کر کرنا ہوگا۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ: احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :