معاشرتی رویوں میں تشدد کے اسباب اور ہماری ذمہ داری

منگل 9 جون 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ھابیل اور قابیل ، اور کہتے ہیں کہ دنیا میں پہلا قتل قابیل نے اپنے بھائی ھابیل کا کیا۔ اس کی وجوہات انسانی نفسیات میں موجود حسد اور جلن کے جزبات ہیں۔ گو کہ وہ ایک نبی کے بیٹے تھے مگر دنیا داری کے اثرات کے زیر اثر اتنا بڑا گناہ کر بیٹھے اور اپنے سگے بھائی کی جان لے لی ۔ گو کہ یہ عمل ابتداء سے آج تک ہر معاشرے ہر تہذیب میں برا ہی مانا جاتا ہے مگر اس کے باجود خوب پنپ رہا ہے۔

اور لوگ مختلف حیلوں بہانوں کی آڑ لیکر اس عمل قبیحہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اور کمال بے حسی اور سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نہ تو اپنے عمل پر شرمسار ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں کسی قسم کا پچھتاوا ہوتا ہے۔ کہیں غیرت کے نام پر قتل ہو رہے ہیں، کہیں مال و دولت کی خاطر تو کہیں رشتہ و جائیداد کیلئے لوگوں کی جانوں سے کھیلا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں تک کے اپنے عزیز ترین رشتوں کا بھی پاس نہیں رکھا جا رہا ۔

اور دنیاوی مقاصد کے حصول کی خاطر ہر رشتے ہر ناطے کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
دراصل اس کہانی کا محرک گذشتہ دنوں ہونے والے پے در پے واقعات ہیں جن کو پڑھ کر روح تک کانپ گئی۔ اخبارات اور نیوز چینلز کے مطابق: محض چند دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں ایسا کچھ ہوا کہ عقل دنگ رہ گئی۔ پہلی خبر کے مطابق پنجاب کے علاقے حافظ آباد کے علاقے میں جائیداد میں سے حصہ مانگنے پر باپ نے اپنے دیگر بیٹوں کے ساتھ مل کر اپنے سگے بیٹے کو قتل کردیا۔

وہ لڑکا جسے اس نے گود میں کھلایا، پال پوس کر جوان کیا شادی کی اور اب اپنے ہی ہاتھوں اس کی جان لے لی، یہ بھی نہ سوچا کہ یہ تو وہی ہے جسے میں لخت جگر کہتا تھا، اس کے بچوں کا کیا ہوگا جو مجھے دادا کہہ کر بلاتے ہیں، مگر دنیا کی خواہش نے اتنی مضبوطی سے جکڑ رکھا ہے کہ نہ باپ نہ بھائی کسی کو رحم نہیں آیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ کراچی میں پیش آیا جہاں بھائی نے بھائی کی جائیداد کی خاطر جان لے لی۔

یہ وہی بھائی رہا ہو گا جس کے ساتھ کھیل کر پروان چڑھا ہوگا، یہ وہی بھائی ہوگا جس کی جھوٹی آئسکریم اور ٹافیاں کھا کھا کر یہ بڑا ہوا ہوگا، یہ وہی بھائی ہوگا جس کی اترن پہن پہن کر یہ اتراتا ہوگا اور آج محض جائیداد کی خاطر اپنے عزیز از جان بھائی کی جان لے لی۔ سب بھول گیا کہ اسی بھائی کی خاطر محلے کے لڑکوں سے لڑائیاں ہوتی تھیں، ایک ہی بستر میں ساتھ سوتے تھے۔

مگر کوئی حسین لمحہ ، کوئی پیار بھری یاد بھائی کی جان لینے سے نہ روک سکی کہ دنیاداری پیروں کی زنجیر بن چکی تھی۔ اس ہی طرح لاہور میں بھائی نے بھائی کو گھریلوں ناچاقی پر قتل کر دیا۔ کمال حیرت ہے کہ قتل کردیا، ارے یہ تو وہی بھائی تھا نا جس سے دن میں دس بار لڑائی ہوتی تھی تو کبھی امی سے شکایت کرکے اور کبھی خود ہی کچھ کر کے بدلا لے لیا جاتا تھا اور شام ڈھلے پھر وہی ایک جان ہوتے تھے، کہانی کی کتابیں اور رنگین پینسلیں لی اور دی جارہی ہوتی تھیں تو پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ جان سے پیارے بھائی کی جان لینے کے در پہ ہو گیا۔


یہ بہت ہی تکلیف دہ اور اذیت ناک سوال ہے کہ آخر ایسا کیا ہے کہ لوگ اپنے عزیز ترین لوگوں کی جان تک لینے سے نہیں چوکتے؟ آخر یہ کونسی ایسی ضرورت ہے جو انسان کو اتنا مجبور کردیتی ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ انجام اس کا بھی آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا جیسا ہوگا وہ کر گزرتا ہے جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔
اس کا آسان سا جواب اخلاقی تربیت کا فقدان اور معاشرے میں میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحانات ہیں۔

اور اگر ہم چاہیں تو اس میں ایک فیکٹر اور بھی ایڈ کر سکتے ہیں اور وہ ہے دین سے دوری۔ عاقبت نا اندیش لوگ سمجھتے ہیں جیسا ٹی وی یا اسمارٹ فون میں کلپ میں دیکھا بالکل ویسا ہی ہوگا اور ہم جرم کرکے بھی صاف بچ جائیں گے، مگر ویڈیو کلپ اور اصل زندگی میں بہت بڑا فرق ہے۔ عمومی طور پر نتیجہ وہ نہیں نکلتا جو ویڈیو میں دیکھا ہوتا ہے۔ مگر ناسمجھی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے مسلسل نقصان اٹھانے کے باجود لوگ اسی روش پر چلے جا رہے ہیں۔


ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل ایک ایسا رواج ہے جو مختلف قبیلوں میں رائج ہے اور اسے کوئی جرم یا بری بات نہیں مانا جاتا بلکہ اس جرم میں ملوث افراد خاندان کیلئے فخر کا سبب ہوتے ہیں، اور مجرم کو کبھی بھی اپنی غلطی کا احساس تک نہیں ہوتا، اسی رواج کو لوگ درپردہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے بھی خوب استعمال کرتے ہیں جیسے بہنوں یا بیٹیوں کو جائیداد میں سے حصہ دینا وغیرہ ۔


مگر اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دینے جیسے سنگین اور دردناک مرحلے تک پہنچنے کا مطلب بہت ہی گھمبیر اور خطرناک ہے، مادہ پرستی اور دنیا داری کی وجہ سے ، مال و زر کی اہمیت ہر چیز سے افضل و بر تر ہو چکی ہے۔ لوگ اب رشتوں سے زیادہ مال و زر کی پرواہ کرتے ہیں۔ لہذا جب موقع آتا ہے کہ مال اور رشتہ میں سے کیا چننا ہے تو قرعہ ہمیشہ مال کے نام ہی نکلتا ہے۔


موجودہ دور میں زندگی ایک نئے ڈھب اور نئے طریق پر رواں دواں ہے، لوگ آرام کم کرتے ہیں اور غیر مفید مشاغل میں وقت زیادہ گزارتے ہیں۔ عمومی طور پر لوگ صحت کے مسائل سے دوچار ہیں اور دواؤں پر انحصار کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ لاحاصل مشاغل میں مصروف رہنے کی وجہ سے جو وقت تربیت کو ملنا چاہئے وہ نہیں مل پاتا، تو جو ذہنی نشو و نما ہونا چاہئے تھی نہیں ہوپاتی۔

ساتھ ساتھ دین سے دوری بھی دل میں سختی اور برتاؤ میں ترشی کا سبب بن رہی ہے۔ لوگ چڑچڑے اور بد مزاج ہو تے جا رہے ہیں۔ غصہ ہر دم ناک پر دھرا رہتا ہے، ایسے میں نتائج کی پرواہ نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ بندہ کتنا لاعلم اور کورا ہے۔ بات بات پر آپس میں لڑجانا، معمولی معمولی معاملات پر تکرار کرنا، سماجی ذمہ داریوں کا خیال نہ کرنا، ہماری زندگی کا معمول بن کر رہ گیا ہے، ایسے میں معاشی پریشانیاں اور نفسیاتی نا آسودگی ذہنی دباؤ کا سبب بنتی ہیں، جو کسی بھی انسان کو اس درجہ تک طیش میں لاسکتی ہیں کہ وہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر کسی بھی جرم کا ارتکاب کر بیٹھے۔


ان تکلیف دہ حالات کا حل یہی ہے کہ لوگوں کی اخلاقی تربیت ہو، مناسب مشاغل جیسے صبح کہ چہل قدمی اور ورزش کو معمول بنانا ہوگا۔ تاکہ ذہن وساوس اور دباؤ سے بچا رہ سکے۔ آج کے دور میں سماجی اور معاشرتی مسائل کی وجہ سے لوگ عمومی طور پر ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں جو انہیں غصہ میں لانے کا سبب بنتی ہے۔ اس کی عمومی وجہ بہت زیادہ ٹی وی دیکھنا، ہر خبر سے باخبر رہنا بھی ہے۔

لہذا خود کو سماجی سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں سے میل ملاپ، کھیل کود، ورزش، اور دیگر ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بھی انسان ذہنی دباؤ سے بچ سکتا ہے۔ کتب بینی ایک زبردست مشغلہ ہے، جو انسان کسی عمر میں کر سکتا ہے، مگر ان سب کے ساتھ ساتھ ہم سب کو مل جل کر کہنے سننے کی روش اپنانی ہوگی، امر بالمعروف کرنا ہوگا، ہر ایک کو نرمی اور خوش مزاجی کا پیغام دینا ہوگا۔ خود بھی معاف اور درگزر کرنا ہوگا اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرنی ہوگی۔ اگر ہماری ان باتوں سے چند لوگ بھی اس راہ پر آگئے تو پھر چراغ سے چراغ چلنا شروع ہوجائیں گے اور معاشرے میں سدھار کی امید کی جاسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :