کورونا کی وباء سے معیشت پر پڑنے والے ممکنہ منفی اثرات

پیر 29 جون 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

گو کہ یہ ابھی بہت ہی مشکل ہے کہ کوروناء کی وباء سے پڑنے والے منفی اثرات کو پوری طرح جانچا اور جانا جاسکے، یہ وباء دنیا بھر میں سیاسی، سماجی اور معاشی بدحالی کا پیش خیمہ بن چکی ہے، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہزاروں لوگ جہاں بے روزگار ہوئے ہیں وہیں بے شمار لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس وباء نے دنیا بھر کی معیشت کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔

کسی کہنے والے نے کیا خوب کہا کہ کورونا وائرس نے دنیا کے کاروباری مراکز بند کرکے دنیا کو ایک ہسپتال بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ وباء دنیا کی سرحدوں سے ماوراء ہر انسان کے لئے شدید خطرے کا باعث بنا ہوئی ہے۔ متعدد انتباہ کے باوجود بہت سے ترقی یافتہ ممالک اس وباء سے نمٹنے کیلئے تیار نہ تھے۔ لہذا یہ ممالک بڑے پیمانے پر اس وباء کا شکار ہوگئے، اور ان کی معیشت کساد بازاری ، یعنی معیشت زبردست گراوٹ کا شکار ہوگئی۔

(جاری ہے)

اور جہاں تک تعلق ہے غریب اور ترقی پزیر ممالک کا وہ تو بد ترین معاشی بدحالی کا شکار ہو گئے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیاء کی آبادی دنیا کی آبادی کا ایک چوٹھائی ہے۔ اور اس وباء کے حوالے سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ غیر محفوظ جگہ ہے۔ یہ بہت ہی خوش آئند ہے کہ اب تک یہاں دنیا کے باقی مقامات کی بہ نسبت متاثرین کی تعداد خاصی کم ہے۔ اس علاقے میں اس جان لیوا وائرس کا پھیلاؤ صحت کی نامناسب سہولیات کی وجہ سے بہت ہی خطرناک ہو سکتا ہے، جس کا اثر یقینا معیشت پر بھی براہ راست پڑے گا۔


ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی معیشت تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے، جو گزشتہ 40 سال کی کم ترین سطح پر جا سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مقامی ترقی شرح کسی بھی حد تک گر سکتی ہے، ہو سکتا ہے کہ سنہ 2020 کے دوران یہ 2.8 % اور 1.8 % کے درمیان تک پہنچ جائے۔ بہت ممکن ہے کہ یہ آئندہ چھ ماہ کے دوران نہایت ہی نچلی سطح تک آجائے اور ان ممالک کو اپنے GDP میں خطرناک حد تک کمی کا سامنا کرنا پڑے۔


جنوب مشرقی ایشیاء کے اکشر ممالک ترقی پزیر ہیں اور یہاں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، ان حالات میں ایک شدید سماجی اور سیاسی بحران کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر اس بات کا شدید امکان ہے کہ معاشرے میں جرائم اور تشدد کی وارداتیں بڑھ جائیں۔ کیوں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں وباء کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گنجائش ممکن نہیں۔

جو عام انسانوں کے لئے شدید تکلیف کا سبب ہے۔
ان حالات میں جبکہ معیشت بدترین بحران کا شکار ہے پاکستان کو دو محازوں پر بیک وقت لڑنا پڑ رہا ہے، ایک تو وباء کا شکار لوگوں کی جان بچانا دوسرا ان کو جینے کیلئے اسباب مہیا کرنا۔ سری لنکا اور افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سر پر بھی معیشت کے منفی درجات تک تنزلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ایک بہت ہی بڑی آبادی کے تناظر میں امکانات بہت ہی مایوس کن نظر آرہے ہیں۔

ہماری آبادی کی تعداد ہمارے وسائل کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے خصوصاً شعبہ ء صحت میں سہو لیات کے حوالے سے تو معاملہ بہت ہی دگرگوں ہے۔ اور اس وباء نے ہماری کمزوریوں کو سب پر آشکار کر دیا ہے۔
ایک اور بدترین صورتحال کا سامنا ملک میں موجود لوگوں کا بے روزگار ہو جا نا ہے دوسری جانب عرب ممالک سے بری تعداد میں لوگوں کا بے روزگار ہوکر وطن لوٹنا ہے۔

یہ حالات کو مذید تشویشناک اور تکلیف دہ بنانے کا سبب ہو رہا ہے۔ اس صورتحال کا دوہرا نقصان یہ ہے کہ ایک تو لوگ بے روزگار ہو کر وطن واپس آ رہے ہیں دوسرا جو غیر ملکی زرمبادلہ آتا تھا وہ بھی بند ہو رہا ہے۔
ایک ایسے ملک کیلئے جو پہلے ہی بے تحاشہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ، یہ صورتحال نہایت مشکل ہے، جبکہ پاکستانی حکومت اپنے تمام ذرائع کورونا کی وباء سے لڑنے پر لگانے پر مجبور ہے۔

حکومت پاکستان کا یہ ایک نہایت ہی صائب عمل ہے کہ ملک کے غریب ترین لوگوں کی مالی امداد کی جارہی ہے، کیوں کہ یہ لوگ اس وباء کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی موجودہ مالی صورتحال کو مدنظر رکھیں تو پائیں گے کہ یہ امداد سارے لوگوں کیلئے ناکافی ہے اور ہم شاید ہر محاز پر کامیابی نہ حاصل کر سکیں۔

ہمارے ہاں ایک بڑی تعداد دھاڑی یعنی روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں ، کاریگروں اور چھوٹے دکانداروں کی ہے جو اس وباء کی وجہ سے بے حد مجبور اور شدید مالی پریشانی کا شکار ہیں۔
عالمی بینک نے اس جانب نشاندہی کی ہے کہ دنیا کی معیشت پر تیزی سے بڑھتے ہوئے قرضوں کے دباؤ کی وجہ سے زبردست کساد بازاری کا اندیشہ ہے ، جو ہمارے سالانہ قرضوں کی شرح میں بد ترین اضافے سبب بن سکتا ہے ۔

پاکستان کا کل قرضہ قریب Rs. 41 trillion ہے۔ جو ہماری قومی شرح نمو کا 94% ہے۔ جو ایک بہت ہی مشکل حالت کی جانب نشاندہی کر رہا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے دنیا کے امیر ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ اس وباء کے دور میں پاکستان سمیت تمام غریب ممالک کے قرضے معاف کردیں، یہ ایک نہایت ہی صائب عمل ہے جس کا فائدہ ان تمام ممالک کو پہنچ سکتا ہے جن کی معیشت اس وقت بد ترین حالات کا شکار ہے۔


وزیر اعظم پاکستان چاہتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں امیر ممالک ان تمام غریب ممالک کی مدد کریں جو پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ سیکٹری جنرل UN نے اس تجویز کو تسلیم کیا او ر اس بات کا اعادہ بھی کیا کے غربت سے لڑتے ہوئے تمام ممالک اس سہولت سے مستفیض ہو سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بہت بڑی رقم چاہئے ان ممالک کے معیشت کو سہارہ دینے کیلئے بلکہ وہاں کے لوگوں کو خوراک مہیا کرنے کیلئے۔

مگر اب تک امیر ممالک کی جانب سے اس درخواست کی قبولیت کا کوئی اشارہ موصول نہیں ہوا ہے، کیونکہ اس وباء نے تو بڑے بڑے امیر ممالک کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ وہ ہماری قرضوں میں نرمی یا معافی کی درخواست قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ مگر موجودہ حالات میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس وباء کو کسی بھی طرح پھیلنے سے روکا جائے، کیونکہ اس وباء کے اثرات صحت اور معاشی طور پر انسانی زندگی کو شدید مسائل کا شکار بنائے دے رہے ہیں۔ اس وباء سے لڑنے کیلے ایک واضح قومی پالیسی ہونا چاہئے۔ اور سب کو مل جل کر پوری ایمانداری سے اس پر عمل بھی کرنا چاہئے۔ اس وباء سے لڑنے کیلئے تمام ممالک کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا، جس کیلئے بین الاقوامی یکجہتی کی شدید ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :