گدا گری۔ مجبوری یا مافیا

منگل 10 نومبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

 گداگری اور (زنان بازاری) جسم فروشی انتہائی کم تر، حقیر اور نا پسندیدہ مانے جانے کے باجود قدیم ترین ذریعہ معاش ہیں جو باوجود اپنی تمام تر نا پسندیدگی کے دنیا بھر کے معاشرتی نظام سے کسی طفیلی کے طورپر چمٹے ہوئے ہیں ، یہ دونوں انسانی تہذیب میں ابتدائی دنوں سے آج تک نہ صرف رائج ہیں بلکی خوب پھل پھول بھی رہے ہیں۔ بلکہ اب تو باقاعدہ صنعت یا مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

مختلف معاشروں میں ان کا طریقہ واردات الگ الگ ہے کچھ ممالک میں لوگ عوامی مقامات پر میوزک بجا کر یا کرتب دکھا کر بھیک مانگتے ہیں اور کچھ ممالک میں اپنی ٹوپی سامنے رکھ کر خاموش بیٹھ کر بھیک مانگی جاتی ہے، جو اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ یہ ایک نادار انسان ہے اور آپ کی مدد کا طلب گار ہے ۔

(جاری ہے)

مگر پاکستان میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
جونہی آپ کی گاڑی کسی سگنل پر رکتی ہے تو مختلف اقسام کے گداگر آپ کی گاڑی کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور مدد کے طلب گار ہوتے ہیں ایسے میں ایک عام انسان شدید ذہنی پریشانی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے کہ کیا کرے، ایسے میں بہت سے سوال ذہن میں ابھرنے لگتے ہیں کہ کیا یہ واقعی مجبور ہے یا کسی مافیا کا حصہ ہے اور ہمیں جل دے کر پیسے ہتھیانا چاہتا ہے۔

کیا یہ عورت جو بھیک مانگ رہی ہے واقعی ضرورتمند ہے یا کہ محض پیسہ کمانے کیلئے ایسا ظاہر کر رہی ہے۔ کیا اس کی گود میں جو بچہ ہے وہ واقعی بیمار ہے اور سو رہا ہے یا اس کو نشہ آور شہ دے کر بیہوش کردیا گیا ہے، یہ جو معذور نظر آرہا ہے یہ کسی حادثے کی وجہ سے ہے یا ارادتاً ایسا کارندہ تیار کیا گیا ہے۔ یہ بچے جو ٹریفک کے خطرناک بہاؤ میں جان کی پرواہ کئے بغیر دوڑ کر گاڑی کے گرد جمع ہوگئے ہیں ان کی مظلومیت حقیقی ہے یا بناؤٹی، یہ سب سوالات ہر اس انسان کے ذہن میں گردش کرتے ہیں جن کا ان سے کسی نہ کسی طرح روزانہ واسطہ پڑ جاتا ہے۔

لوگ ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں مگر ٹھگے جانے اور بیوقوف بنائے جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔
 گداگری کا رجحان ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے بڑھ اور پنپ رہا ہے۔ جو غیر روایتی اور متفرق لوگوں پر مبنی ہیں۔ گداگری کو ہم پاکستان میں تین حصوں مین تقسیم کر سکتے ہیں۔
1۔ واقعی نادار ہیں، اور مجبوراً بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں:
یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کی گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا شکار ہیں ، اور غربت کی انہتا کو پہنچ کر گداگری پر مجبور ہیں ، ان کی تعداد تقریباً 29% ہے۔


2۔ دوسرے وہ جو گداگری کو ایک آسان آمدنی کا ذریعہ جان کر اپنا لیتے ہیں:
گو کہ دوسری قسم کے گداگروں کی تعداد کے بارے میں کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں مگر ایک عمومی تجزیہ اور تحقیق سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس قسم کے گداگروں کی تعداد میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کی عمومی و جہ بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی بے روزگاری اور کاروباری گراوٹ ہو سکتی ہے۔


3۔ وہ جنہیں زبردستی گداگری پر مجبور کیا گیا ہوتا ہے:
 تیسری اور آخری قسم خطرناک مجرموں، کے گروہوں اور منظم مافیا پر مشتمل ہے، جو بچوں اور عورتوں کو اغواء کرکے انہیں معذور بنا کر اور قابل رحم حالت میں لا کر زبردستی بھیک منگواتے ہیں ۔
جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ گداگر دنیا میں کہیں بھی پائے جاسکتے ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ گداگر دنیا میں تقریباً ہر جگہ پائے جاتے یہاں تک کہ دنیا کے نہایت ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں بھی۔

ایک غیر ملکی جریدے کے مطابق جنوبی ایشیاء میں بھارت گداگروں کی جنت مانا جاتا ہے اور یہاں ایشیاء میں سب سے زیادہ بھکاری موجود ہیں۔ بھارت کے بعد بنگلہ دیش اور تیسرے نمبر پر پاکستان میں بھکاری موجود ہیں۔
ILO کے ایک علاقائی تجزئیے کے مطابق انہوں نے جب سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان میں اوسطاً 200 بھکاریوں سے انٹرویو کیا تو پایا کہ ، پاکستان میں تقریباً 34% بھکاری ایسے تھے جن سے مافیاز اور جرائم پیشہ گروہ زبردستی گداگری کروا رہے ہیں۔

بنگلہ دیش اور سری لنکا میں یہ تعداد بہت کم ہے، جو ہمیں واضح طورپر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان میں مجبوراً گداگری ایک جرائم پیشہ مافیا کی شکل اختیار کرچکی ہے اور اس کیلئے قانو ن سازی اور اس کے نفاز کی فوری ضرورت ہے۔
گوکہ دنیا بھر میں گداگری کے خلاف باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہے ، مگر گداگری کے خلاف قانون کا نفاز دنیا بھر کے لئے ایک مشکل مرحلہ ہے۔

پاکستان میں بھی گداگری کے خلاف قانون موجود ہے، اور پاکستان میں گداگری قابل سزا جرم ہے مگر اس کے نفاز کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس صورتحال پر نادار اور بے سہارہ لوگوں کی فلاح کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ ان کے لئے شیلٹر ہومز کی تعمیر اور زکوة کی ایمانداری سے تقسیم بہت ہی مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔


قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق صرف لاہور میں ہی ایسے چودہ گروہ موجود ہیں جو بچوں اور عورتوں سے جبری بھیک منگواتے ہیں۔ اسی طرح باقی شہروں کی بھی حالت ہوگی مگر ان کے اعداد و شمار موجود نہیں ۔ یہ مافیا اور جرائم پیشہ افراد کے گروہ خوب پھل پھول رہے ہیں جس کی وجہ ان کے خلاف خاطر خواہ کاروائی کا نہ ہونا ہے، حکومت، فلاحی اداروں اور سماجی سطح پر توجہ نہ دیا جانا بھی ایک بڑی وجہ ہے، جس کی وجہ سے یہ خوب پروان چڑھ رہے ہیں اور پھل پھول رہے ہیں۔

بعض جگہوں پر تو یہ مافیا اور گروہ باقاعدہ سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ اور یہ گداگر مافیا بہت سے جرائم کو پروان چڑھانے کا سبب بن رہے ہیں جن میں، رہزنی، اغواء، چوری، ڈکیتی، قتل اور منشیات فروشی جیسے مکروہ دھندے شامل ہیں۔
معاشرے کو اس ناسور کی غلط کاریوں سے بچانے کیلئے اور اس کے مکمل قلعہ قمع کیلئے فوری عملی اقدامات کی ضرورت ہے ، تاکہ اس غیر انسانی اور مکروہ فعل کو روکا جا سکے اور ان مجرم گروہوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جا سکے۔

ساتھ ساتھ حکومت سطح پر ، عوامی سطح پر، اور سماجی سطح پر ایسے فلاحی نطام کی موجودگی کی اشد ضرورت ہے جو حقیقی مجبور اور لاچار لوگوں کی مستقل امداد کر سکے، جیسے ان کو فنی تعلیم فراہم کر سکے، ان کے کھانے ، پہنے اور رہنے کی سہولت فراہم کر سکے۔ حکومت یہ کام قومی زکوة پروگرام کے تحت اور دیگر فلاحی ادارے چندے کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں اور معاشرے کو ظلم زدہ اور جبر میں جکڑے ہوئے لوگوں کی بجائے آسودہ اور خوشحال شہری فراہم کر سکتے ہیں۔ جو معاشرے کی ترقی اور ملک کی فلاح کیلئے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :