کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 جون2020ء) وزیر
تعلیم و محنت
سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ہم اسٹیل مل سے 9500ملازمین کو نکالنے کے خلاف ان ملازمین کے ساتھ ہیں اور ہر فورم پر پاکستان
پیپلز پارٹی ان ملازمین کا تحفظ کرے گی۔ موجودہ حکومت کی نظر اسٹیل مل کی اربوں روپے کی زمین پر ہے جبکہ یہ زمین
سندھ حکومت کی ہے اور ہم کسی صورت ان کے اے ٹی ایم کو یہ زمین نہیں لینے دیں گے۔
سندھ حکومت نے ماضی میں
نواز شریف کی جانب سے اسٹیل مل کی
نجکاری کے خلاف آواز بلند کی تھی اور اب بھی ہم ان ملازمین کو نکالے جانے پر خاموش نہیں رہیں گے۔
سندھ حکومت اسٹیل مل کو خود چلائے گی اس پر وفاق ہم سے بیٹھ کر بات کرے۔
امریکی نژاد ایک خاتون کو ہمارا میڈیا ہیڈ لائن بنا کر پیش کررہا ہے، جس کا مقصد پاکستانی سیاستدانوں کا امیج عوام کی نظروں میں خراب کرنا ہے اور اس وقت جو مشکلات اور چیلنجز اس ملک میں عوام کو درپیش ہیں ان سے توجہ ہٹانا ہے۔
(جاری ہے)
کرونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اس کے لئے
سندھ حکومت سرکاری اسپتالوں میں مزید سہولیات کی فراہمی کے لئے کوشاں ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پیپلز لیبر بیورو
سندھ کے صدر حبیب جنیدی اور اسٹیل مل کے رہنما
شمشاد قریشی بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔
سعید غنی نے کہا کہ آج
سپریم کورٹ کے کندھوں کو استعمال کیا جارہا ہے اوراس کے فیصلے کو جواز بنا کر ساڑے نو ہزار اسٹیل مل کے ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جو بھی خفیہ منصوبہ بنایا ہے، کیا اس حکومت نے سی سی آئی سے اس کی منظوری لی ہے کیونکہ اسی
سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں یہ بات واضح ہے کہ اگر وفاقی حکومت کسی بھی ادارے کی
نجکاری کرے یا کوئی اور اقدام کرے تو پہلے اسے
آئی سی سی سے اس کی منظوری لینی ہوگی۔
سعید غنی نے کہا کہ آج یہ چول قسم کے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ
پیپلز پارٹی نے اسٹیل مل میں اپنے کارکن بھرتک کئے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 2008 سے ابتک اسٹیل مل میں ایک آدمی بھرتی نہیں کیا گیا ہت بلکہ اسٹیل مل سمیت دیگر اداروں میں جب
پیپلز پارٹی وفاقی حکومت میں تھی تو کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ 1996 سے 2008 تک
پیپلز پارٹی حکومت میں نہیں تھی، اس دوران مشرف اور دیگر کی حکومتوں میں اسٹیل مل سمیت کئی اداروں میں کنٹریکٹ پر ملازمین کو بھرتی کیا گیا تھا۔
سعید غنی نے کہا کہ اسٹیل مل پر ایس ایس جی سی کا پانچ سال پہلے 35 ارب کا بل تھا اگریہ واجبات اس وقت ادا کیے جاتے تو آج یہ مل چلتی رہتی اور جس 72 ارب کا رونا آج رویا جارہا ہے وہ بھی نہ ہوتا اور آج ایس ایس جی سی کے واجبات 35 ارب سے بڑھ کر 66 ارب 66 کروڑ تک نہ پہنچ جاتے۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایس جی سی نے واجبات کی عدم ادائیگی کو جواز بنا کر اسٹل مل میں
گیس کی فراہمی منقطع کردی گئی اورجس وقت
گیس کی سپلائی بند گئی اس وقت مل 65 فیصد پیداوار کر رہی تھی اور اگر
گیس بند نہ کی جاتی تواگلے دو سال میں
پاکستان اسٹیل مل اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہوتی۔
سعید غنی نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کون لوگ تھے جنھوں نے
گیس کی فراہمی بند کروائی اورواجبات تو نہیں ملے الٹا
پاکستان اسٹیل مل
تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی۔انہوں نے کہا کہ اب حکومت نے شاید اسٹیل مل کی
نجکاری کا کوئی خفیہ منصوبہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اسٹیل مل سے متعلق کوئی بھی فیصلہ ای سی سی میں لائے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔
ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ اسٹیل مل کے متعلق جب بھی کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو اس کی توجہ کا مرکز اسٹیل مل کی زمین ہے، جس کی مالیت اربوں میں ہے۔ انہوں نے کہا کہہ 19 ہزار ایکڑ زمین اسٹیل ملز کی ہے،جس کی ملکیت
سندھ کے پاس ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ سی سی آئی کی منظوری کے بغیر اگر کوئی فیصلہ ہوا تو ہم مزاحمت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو نکالا جا رہا ہے، ہم اسکی مذمت کرتے ہیں اور
پیپلز پارٹی ان خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لگتا ہے
اسد عمر ہی وزیر اعظم ہیں کیونکہ وزیر اعظم کو کابینہ کے فیصلوں کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ
اسد عمر نے کہا تھا کہ میری تقریر
ریکارڈ کرلو کے اگر
پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور اسٹیل مل کے لئے کوئی غلط فیصلہ ہوا تو میں اسٹیل مل کے ملازمین کے ساتھ کھڑا ہوں گا، انہوں نے کہا کہ مجھے انتظار ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں
اسد عمر کیا موقف اختیار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ
ایم کیو ایم نے بھی ملازمین کو نکالے جانے کی مذمت کی ہے، صرف مذمت کافی نہیں بلکہ عملی طور پر ہونے کی ضرورت ہے البتہ ہمیں امید ہے
ایم کیو ایم کے وزرا اس فیصلے کو روکنے کے لئے مزاحمت کریں گے بلکہ شاید جی ڈی اے کا بھی ضمیر جاگ جائے وہ بھی
ایم کیو ایم کے ساتھ مخالفت کریں۔ انہوں نے کہا کہ توقع اور امید نہیں ان لوگوں سے کام کی لیکن پھر بھی یہ بات کر رہا ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کئی مرتبہ یہ لوگ وعدہ کر کے گئے تھے کے
نجکاری نہیں کریں گے ماہرین لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم سے سوال ہے کہ
پی ٹی آئی کی حکومت نے اسٹیل مل کو چلانے کی کتنی بار کوشش کی ہی مجھے تو کہیں کوشش نظر نہیں آئی البتہ اسٹیل مل کا خسارہ بڑھ گیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ
مسلم لیگ (ن) بھی اسکی
نجکاری کی بات کر رہی تھی اس وقت بھی ہم نے کہا تھا کہ اسٹیل مل کو
سندھ کو جن شرائط پر دینا چاہتے ہیں ہمیں بتائیں ورنہ
سندھ حکومت اسٹیل مل کو چلانے کے لئیے تیار ہے۔
ہم سے بیٹھ کر بات کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ بہتر طریقہ یہ ہے کے یہ مل حکومت کے پاس رہے اور ہم اس بات کی ضمانت دیں گے کہ ایک بھی ملازم کو نکلنے نہیں دیں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب
مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں اسٹیل مل کی
نجکاری کا فیصلہ کیا گیا تھا اس وقت
سندھ حکومت نے نہ صرف اس مل کو چلانے کا اعادہ دیا تھا بلکہ اس حوالے سے وفاقی حکومت سے خط و کتابت بھی کی گئی تھی۔
امریکی نژاد خاتون سنتھیا رچی کے حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ایک مشکوک خاتون کے مشکوک خرافات کو میڈیا ہیڈ لائن میں جگہ دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خاتون کا مقصد صرف پاکستانی سیاستدانوں اور
پاکستان کی سیاسی قیادت کا امیج یہاں کی عوام کے سامنے خراب کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام
پاکستان میڈیا سے گزارش کرتا ہوں کہ موجودہ حالات جس میں
کرونا وائرس سے لوگ بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں، جہاں اس وائرس سے لوگوں کی اموات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
جن حالات میں ملک بدترین معاشی بحران کا شکار ہے، جہاں چینی
اسکینڈل کو پس پست ڈال کر، پیٹرولیم مصنوعات کی
قلت والے معاملے کو پیچھے دھکیل کر اس قوم کو ایسے معاملہ میں الجھایا ہوا ہے، جو غیر ملکی ایجنڈہ معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج یہ قوم
کرونا، بیروزگاری،غربت اور اسٹیل ملزکے ہزاروں ملازمین کے خاندانوں سے توجہ ہٹا کر اس
اسکینڈل کی طرف ڈال دی گئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت
سندھ میں
کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کے بعد سرکاری کے ساتھ ساتھ نجی اسپتالوں میں بھی مریضوں کا رش بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ
دنیا بھر میں نجی اسپتال اپنے مریضوں سے چارجز وصول کرتی ہیں۔ البتہ
سندھ حکومت کے ماتحت چلنے والی تمام سرکاری اسپتال مفت
علاج کررہی ہیں اور ہم نے
کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کو مزید سہولیات کی فراہمی کے لئے اسپتالوں میں اقدامات جاری رکھیں ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کو وہاں مفت
علاج کی سہولت مسیر آسکے۔