Live Updates

اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ ہے کہ مجھے اقتدار میں نہیں آنے دینا، عمران خان

DW ڈی ڈبلیو اتوار 26 مارچ 2023 13:00

اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ ہے کہ مجھے اقتدار میں نہیں آنے دینا، عمران خان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مارچ 2023ء) ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب لاہور کے مینار پاکستان پارک میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا اگر یہ لوگ انہیں اقتدار میں نہیں آنے دیتے تو نہ آنے دیں لیکن ان کو یہ تو بتانا چاہیے کہ اقتدارمیں آنے سے روک کر ان کے پاس ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا کیا کوئی روڈ میپ ہے؟ ان کے بقول انہیں پتہ ہے ان کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔

جلسہ گاہ کے اسٹیج پر بنائے گئے بلٹ پروف کیبن سے خطاب کرتے ہوئے اپنی طویل تقریر میں عمران خان نے پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تفصیل سے ذکر کیا اور بتایا کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں وہ ملک کو موجودہ اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے کیا کیا اقدامات کریں گے۔

(جاری ہے)

کیا واقعتاﹰ عمران خان کو مارنے کی سازش ہو رہی ہے؟

'پاکستان تحریک انصاف شرپسندوں کا گروہ ہے'

عمران خان جی ایچ کیو کے لیے سب سے بڑا خطرہ

عمران خان نے کہا کہ وہ اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور سارے پاکستانیوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ اگر سب نے ابھی اس ملک کو نہ سنبھالا تو یہ سب کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

ان کے بقول فیصلہ ہو چکا ہے کہ عمران خان کو جیتنے نہیں دینا، یہ الیکشن میں التوا، ان کے گھر پر حملے اور گرفتاریوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں نہیں آنے دینا۔ ''میں چیلنج کرتا ہوں کہ جو لوگ اوپر بیٹھے ہیں نہ ان کے پاس کوئی اہلیت ہے، نہ ان کے پاس نیت ہے، ان سب کے پیسے تو باہر پڑے ہیں، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم جس تیزی سے نیچے جا رہے ہیں تو کیا یہ ملک کو سنبھال سکیں گے۔

‘‘

عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت جس بحران کا سامنا ہے، اس مشکل سے نکالنے کا کوئی آسان راستہ نہیں ہے، اب سارے مشکل فیصلے کرنے ہیں لیکن مشکل فیصلے وہ کر سکتا ہے جس کے پاس مینڈیٹ ہو کیونکہ جب ایک عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت پانچ سال کے لیے آئے گی تو تب ہی کاروباری برادری کو اعتماد آئے گا کہ سیاسی استحکام آ چکا ہے۔ اس کے بعد اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔

''گورننس سسٹم ٹھیک کرنا پڑے گا، اس کے لیے قانون کی حکمرانی لانی پڑے گی، ملک کا ماحول ٹھیک کرنا پڑے گا۔‘‘

چئیرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ملک میں ڈالر درآمدات کے ذریعے لانے میں وقت لگے گا لیکن بیرون ملک پاکستانیوں کے ذریعے ملک میں فوراً پیسہ آ سکتا ہے، پاکستان کے 18ہزار ڈاکٹرز امریکا میں موجود ہیں جن کی جائیدادوں کی کُل مالیت 200 ارب ڈالر ہے۔

''ہم آئی ایم ایف کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر 6 ارب ڈالر مانگ رہے ہیں۔‘‘ غمران خان نے ملکی معیشت کی بہتری اور ڈالر کا بہاؤ یقینی بنانے کے لیے درآمدات، سیاحت، معدنیات، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں، زراعت کے فروغ کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔

عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملک کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے صاف اور شفاف الیکشن کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے، ''یہاں صاحب اقتدار لوگوں کے ذہن میں صرف ایک ہی بات ہے کہ عمران خان کو باہر کیسے رکھنا ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ وقت کم ہے، انہیں کہتے ہیں کہ الیکشن اکتوبر تک ملتوی کر دیں۔ ''مجھے ایک چیز بتا دیں کہ اکتوبر میں الیکشن کرانے سے ملک کو کیا فائدہ ہو گا، مجھے قائل کر لیں کہ اگر الیکشن ملتوی ہوتا ہے تو تب تک ملک سنبھل جائے گا، ملک تو نیچے جا رہا ہے، حل کوئی ہے نہیں لیکن یہ لوگ الیکشن ہارنے سے ڈرے ہوئے ہیں اس لیے الیکشن نہیں کرانا چاہتے۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ اب 30 اپریل کا الیکشن ملتوی کر دیا گیا ہے، ملک میں جنگل کا قانون آ گیا ہے، جب آئین کہتا ہے کہ 90 دن میں الیکشن ہونا ہے، جب سپریم کورٹ کہتا ہے کہ 30 اپریل کو الیکشن ہونا ہے، تو کس منہ سے الیکشن کمیشن نے کہا کہ اکتوبر میں الیکشن ہو گا؟ ''یہ کہتے ہیں ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، الیکشن کمیشن مجھے یہ بتائے کہ ملک کا دیوالیہ نکلتا جا رہا ہے تو اکتوبر میں پیسے کیسے آئیں گے؟ تو اس کا مطلب کبھی الیکشن ہوں گے ہی نہیں۔

ہم نے الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ پاکستانی عوام نے اب سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔‘‘

عمران خان نے کہا کہ وہ اپنے ملک کے لیے آخری گیند تک لڑیں گے، انہیں کسی کا خوف نہیں۔ خان کے بقول ایک قوم بن کر اس ملک کو دلدل سے نکال لیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف لاہور کے مینار پاکستان پارک میں ہونے والے اس جلسے میں صوبے کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی۔

تیز روشنیوں میں نہایا ہوا پنڈال سارا وقت نعروں اور ترانوں سے گونجتا رہا۔ کارکنوں نے اپنے ہاتھوں میں پاکستان اور پی ٹی آئی کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔ پنڈال میں خواتین کے لیے ایک خاص انکلوزر بنایا گیا تھا جہاں پر خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

جلسے سے پہلے پنجاب کے مختلف علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاری کے لیے کریک ڈاون کیا گیا۔

سیالکوٹ، میاں چنوں، لاہور، وہاڑی مظفر گڑھ اور فیصل آباد سمیت کئی جگہوں سے کارکنوں کے گھروں پر چھاپوں کی اطلاعات ملیں۔ پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کے بقول پنجاب بھر سے اس جلسے کو روکنے کے لیے پی ٹی آئی کے اٹھارہ سو سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔

جلسے سے پہلے مینار پاکستان کو جانے والے تمام راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا تھا اور پی ٹی آئی کارکنوں کو کئی میل دور گاڑیاں پارک کر کے جلسہ گاہ تک پیدل آنا پڑا۔

اس کے علاوہ لاہور کے داخلی اور خارجی راستے بھی بند کر دیے گئے تھے۔ جلسہ گاہ اور اس کے آس پاس انٹرنیٹ سروس معطل رہی اور بجلی کی بھی غیر اعلانیہ بندش دیکھنے میں آئی۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مینار پاکستان پارک میں انتظامیہ کی طرف سے پانی چھوڑنے کا الزام لگایا لیکن پنجاب کے وزیر اطلاعات عامر میر کا موقف ہے کہ لاہور میں پچھلے دو دنوں سے ہونے والی بارش کی وجہ سے پارک میں پانی جمع ہے۔

انتظامیہ کے مطابق کنٹینرز کارکنوں کی حفاظت کے لیے سیکورٹی پوائنیٹ آف ویو سے امن وامان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے لگائے گئے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار سلمان عابد نے عمران خان کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کسی کو اقتدار میں لانے یا روکنے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

اس لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے آج کل جو فاصلے بڑھے ہوئے ہیں ان کے پیش نظر وہ اس شک کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہیں اقتدار میں آنے سے روکا جا رہا ہے۔

سلمان عابد سمجھتے ہیں کہ عمران خان اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کا طرزعمل چھوڑ کو انہیں انگیج کرنے کی طرف آنا ہو گا۔ سلمان عابد کے بقول ابھی عمران اور اسٹیبلشمنٹ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں پہنچے۔

پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی اسٹیبلشمنٹ کی شدید مخالفت کے باوجود اگے بڑھنے کا راستہ نکال چکے ہیں۔ اگرچہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ میں کچھ لوگ عمران خان کی بے جا تنقید سے نالاں نظر آتے ہیں اور عمران خان بھی اپنے اقتدار کے خاتمے میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ خیال کرتے ہیں لیکن ضد ٹکراؤ اور تناؤ کی پالیسی کو ختم کرکے ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ایک مقبول ترین جماعت کو نظرانداز کرنا ان کے لیے مستقبل میں مشکلات کا باعث بنے گا اور عمران خان کو بھی پاکستان کے زمینی حقائق کو دھیان میں رکھ کر چلنا ہو گا۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات