اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مئی 2025ء) کچھ عرصہ پہلے تک پاکستانی فوج کو معاشرے کے تمام طبقات کی جانب سے سیاست میں اپنے مبینہ کردار کی وجہ سے تنقید کا سامنا تھا۔ پاکستان میں بہت سے لوگوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے فوجی جرنیلوں پر گزشتہ سال کے عام انتخابات میں جوڑ توڑ کا الزام لگایا تھا۔
انہوں نے خاص طور پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر عمران خان کو قید کرنے میں ان کے کردار کے لیے مورد الزام ٹھہرایا، حالانکہ فوج اس الزام سے انکار کرتی رہی ہے۔جوہری ہتھیاروں کی دھمکی نہیں چلے گی، مودی
کراچی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور نے ایک ماہ قبل ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فوج کی وجہ سے ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔
(جاری ہے)
وہ خان کو سلاخوں کے پیچھے رکھ رہی ہے کیونکہ انہوں نے فوج کے تسلط کو چیلنج کیا تھا۔
‘‘لیکن 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے شہر پہلگام میں سیاحوں پر ہلاکت خیز حملے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ اس حملے میں 26 افراد، جن میں سے زیادہ تر ہندو مرد تھے، مارے گئے۔
اس حملے کی ذمہ داری خود کو کشمیر ریزسٹنس کہنے والے ایک گروپ نے قبول کی تھی، جس کے بارے میں بھارت کا کہنا ہے کہ اسے مزاحمتی محاذ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اس کا تعلق اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) سے ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین جوہری جنگ کو رکوایا، امریکی صدر
نئی دہلی نے اسلام آباد پر حملے کی پشت پناہی کا الزام لگایا، لیکن پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
یہ بحران جلد ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس دو حریف ممالک کے درمیان ایک بڑے فوجی تصادم میں تبدیل ہو گیا۔
سات مئی کو، بھارتی فضائیہ نے میزائل حملے شروع کیے، جن کے بارے میں نئی دہلی کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں دہشت گرد کے کیمپوں کو نشانہ بنانا تھا۔
ان حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، اور مرنے والوں کی تعداد اس وقت بڑھ گئی جب دو دن بعد پاکستان نے جوابی حملے کیے۔
پاکستانی فوج کو فائدہ
اسلام آباد میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ کار ناظر محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''غیر مقبول حکومتوں کو اس قسم کے فوجی تنازعات سے تقویت ملتی ہے۔ بھارت کے حملے کے بعد (پاکستانی) فوج کے ناقدین بھی، جو عام طور پر لبرل اور سیکولر ہوتے ہیں، اسلام آباد سے نئی دہلی کو سبق سکھانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
‘‘بھارتی اور پاکستانی فوجی قیادت کے مابین رابطے
بھارت اور پاکستان دونوں نے حالیہ کشمیر تصادم میں اپنی اپنی فتح کے دعوے کیے۔ شہریوں نے بھی اپنی اپنی حکومتوں کی حمایت میں ریلیاں نکالیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین نے قوم پرستی کے جوش و خروش کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کی بھی تعریف کی۔ بھارتی افواج پر پاکستانی فوج کی ''کامیابی کا جشن‘‘ منانے کے لیے کچھ شہروں میں لوگ سڑکوں پر بھی نکل آئے۔
مثال کے طور پر لاہور کی ایک 36 سالہ ڈاکٹر مریم حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں فوج کی کارکردگی پر فخر ہے۔
انہوں نے اسلام آباد کے دعووں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''ہم نے اپنے ملک کی حفاظت کی ہے اور کمزور نہیں نکلے۔ ہم نے بھارتی جنگی طیاروں کو مار گرایا اور مختلف مقامات پر بھارت پر حملہ کیا۔‘‘
جنگ میں کون ہارا؟ کون جیتا؟
تجزیہ کار ناظر محمود کا خیال ہے کہ فوج نے اپنی ملکی طاقت دوبارہ حاصل کر لی ہے۔
انہوں نے کہا، ''اگرچہ فوج پہلے ہی حکمرانی کے تمام شعبوں پر کنٹرول رکھتی ہے، لیکن اب سیاست پر اس کی گرفت اور مضبوط ہو جائے گی۔‘‘لاہور میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار فاروق سلہریا نے کہا کہ یہ اندازہ لگانے کا کوئی سائنسی طریقہ نہیں ہے کہ اس تازہ ترین لڑائی نے فوج کی مقبولیت کو کس حد تک بڑھایا، سوشل میڈیا پوسٹس اور مین اسٹریم میڈیا پر تبصرے یقینی طور پر اس کی مقبولیت میں اضافے کے رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔
سلہریا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں جو چیز سمجھنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ فوج کی حمایت بھارت مخالف جذبات سے پیدا ہوتی ہے۔ فوج اب اس مختصر جنگ کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرے گی۔ اسے امیج بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘‘
’ہندوؤں کا محافظ‘ بیانیہ
بھارت میں قوم پرست بھی اس تصادم کو وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ''فتح‘‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
پہلگام میں ہونے والے حملے نے مودی کی حکومت پر شدید دباؤ ڈالا کہ وہ جوابی حملہ کرے اور قصور واروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو سزا دے۔
بھارتی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ افسر ادے بھاسکر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت اور وزیر اعظم مودی کو 22 اپریل کے حملے کا جواب دینا ہی تھا، کیونکہ اپوزیشن اور سوشل میڈیا صارفین نے 2008 میں ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے بعد (جوابی کارروائی نہ کرنے پر) سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کو گالیاں دینے والے مودی کے بیانات کے کلپس چلائے تھے۔
‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''لہٰذا مودی کو یہ ثابت کرنا پڑا کہ وہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں مریدکے اور بہاولپور تک بھارت کی 'گھس کے مارو‘ کی پالیسی پر عمل کر سکتے ہیں۔ادے بھاسکر کا کہنا تھا، ''یہ بیانیہ 'مودی کی زیر قیادت بھارت‘ کے اس جارحانہ امیج کو تقویت دیتا ہے، جو دہشت گردی کے لیے انتہائی سخت اور صفر برادشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
یہ 'ہندوؤں کے محافظ‘ بیانیے کی تائید کرتا ہے، جس کے انتخابی فوائد ہیں۔ بہار کے آنے والے اسمبلی انتخابات اس بیانیے کا امتحان ہوں گے۔‘‘منترایا انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی صدر شانتھی میریٹ ڈی سوزا کے مطابق، تاہم امریکی ثالثی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ بندی نے بھارت میں ہندو قوم پرستوں کو مشتعل کر دیا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نہیں سمجھتی کہ جنگ بندی تمام بھارتی قوم پرست گروہوں کے لیے قابل قبول ہے کیونکہ اس سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ان کی توقعات مجروح ہوئی ہیں۔‘‘
ڈی سوزا نے کہا، ''بی جے پی کی پاکستان کے بارے میں مستقبل کی پالیسی تاہم اس وقت تک وہی رہے گی، جب تک کہ اسلام آباد کشمیر پر اپنے دعوے کو ترک نہیں کرتا اور دہشت گردی کو فروغ دینا بند نہیں کرتا۔
دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی یہی پالیسی رہی ہے۔‘‘بھارت اور پاکستان میں مزید پابندیاں
ماہرین کا کہنا ہے کہ تنازع کے نتیجے میں دونوں ممالک میں جنگی جذبات کے باوجود تشدد کی قیمت بالآخر دونوں ممالک کے عوام کو ہی چکانا پڑے گی۔
تجزیہ کار محمود نے کہا، ''سیاست میں پاکستانی فوج کی مداخلت مزید بڑھے گی، اور سیاستدانوں کے لیے جگہ اور بھی کم ہو جائے گی۔
‘‘ناظر محمود کے مطابق تازہ ترین تنازعہ پاکستانیوں پر معاشی طور پر بھی اثر انداز ہو گا، ''حکومت جون میں سالانہ بجٹ پیش کرنے والی ہے۔ حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ترقی کے لیے فنڈز کم ہو جائیں گے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آنے والے سالوں میں فوج ملک پر اپنی آہنی گرفت کے ساتھ حکومت کرے گی۔
‘‘سلہریا کے مطابق موجودہ منظر نامہ پاکستان میں شہری حقوق کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ''اب بلوچستان اور خیبر پختونخوا صوبوں میں عوامی تحریکوں کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ حکام ملک بھر میں مزید جابرانہ اقدامات کریں گے۔‘‘
جب ادے بھاسکر سے پوچھا گیا کہ کیا مودی حکومت حالیہ تنازع کو سیاسی مخالفین اور اقلیتی برادریوں سمیت ناقدین کو مزید کنارے لگانے کے لیے استعمال کر سکتی ہے، تو انہوں نے اعتراف کیا کہ ''سوشل میڈیا پر پابندیاں‘‘ بڑھ سکتی ہیں، لیکن انہوں نے ساتھ ہی اس امید کا بھی اظہار کیا کہ حکومت اس راستے پر نہیں چلے گی۔
جاوید اختر ، مصنف: شامل شمس
ادارت: مقبول ملک
ڈی ڈبلیو کے نامہ نگاروں مرلی کرشنن (نئی دہلی) اور ہارون جنجوعہ (اسلام آباد) نے بھی اس رپورٹ میں تعاون کیا۔
https://www.dw.com/a-72516887