نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 ستمبر2023ء) نگران
وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے واضح کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کی کنجی
کشمیر ہے،تمام ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں
،پاکستان اور
بھارت کے درمیان امن کیلئے
مسئلہ کشمیر کا حل ہونا ضروری ہے،
بھارت خطے میں انتہاپسندی کو فروغ دے رہا ہے،
دنیا کو دہشتگردی بشمول
بھارت جیسی ریاستی دہشتگری کو ختم کرنا ہوگا، ہندوتوا جیسے نظریات نے ہی اسلاموفوبیا کو
دنیا میں بڑھایا ہے،اسلاموفوبیا کی وجہ سے مسلمانوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، چیلنجز سے نمٹنے کیلئے
دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا
،افغانستان سے کالعدم
تحریک طالبان پاکستان اور داعش
پاکستان میں
دہشت گرد حملے کر رہے ہیں،افغان حکومت اس مسئلے میں اپنا اہم کردار ادا کرے،موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے
پاکستان کو 30 ارب
ڈالر کا
نقصان ہوا،
سی پیک کے ذریعے
پاکستان مستحکم ہوگا۔
(جاری ہے)
جمعہ کو یہاں جنرل
اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے نگران
وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہم جدید تاریخ کے نازک موڑ پر مل رہے ہیں، یوکرین میں تنازع جاری ہے اور
دنیا کے دیگر 50 مقامات پر بھی تنازعات ہیں، عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں نئے اور پرانے عسکری بلاکس اور جیو پالیٹکس بڑھ رہی جب معیشت کو اولیت ملنی چاہیے۔
انہوںنے کہاکہ
دنیا سرد جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، اس سے کہیں زیادہ خطرناک چینلجز کا سامنا ہے جس کے لیے عالمی تعاون اور مشترکہ کارروائیوں کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت تنزلی کا شکار ہے، بدترین انٹرسٹ ریٹ کساد بازاری کا باعث ہوسکتی ہے، کوڈ، تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی سے کئی ممالک کی معیشت کو تباہ کردیا ہے اور متعدد ممالک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ غربت اور بھوک میں اضافہ ہوگیا ہے، 3 دہائیوں کے ترقیاتی کے فائدے تنزلی کا شکار ہوگئے ہیں، ڈیویلپمنٹ کے لیے ہمیں پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول یقینی بنانا ہوگا۔انہوںنے کہاکہ
پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کوپ 28 میں کیے گئے وعدوں پورے کرنے کے لیے پرعزم ہے، موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سالانہ کروڑوں
ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ
پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے بدترین متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے، گزشتہ برس آنے والے
سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آیا اور 1700 افراد
جاں بحق ہوئے اور 80 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے۔انہوںنے کہاکہ انفرااسٹرکچر کو
نقصان ہوا اور معیشت کو 30 ارب
ڈالر سے زائد کا
نقصان ہوا۔نگران
وزیراعظم نے کہا کہ ہم
پاکستان کے بحالی اور تعمیر کے پروگرام کیلئے 10.5 ارب
ڈالر سے زائد کے وعدوں کے حوالے سے پرامید ہیں۔
انوار الحق کاکڑ نے کہاکہ مجھے امید ہے کہ ہمارے ترقیاتی شراکت دار ہماری بحالی کے پروگرام کیلئے فنڈز کی فراہمی کو ترجیح دیں گے، جس سے 30 ارب ڈالر
نقصان ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی وسطی ایشیا کے ساتھ جڑنے کے منصوبوں پر فوری عمل درآمد کا پرعزم ہے، ترقی کا انحصار امن پر ہے،
پاکستان دنیا میں
معاشی لحاظ سے
غریب ریجنز میں سے ایک میں واقع ہے۔
نگران
وزیراعظم نے کہاکہ
پاکستان کا موقف ہے کہ ریجن اتحاد سے ترقی کرتا ہے، اسی لیے
پاکستان اپنے تمام ہمسائیوں بشمول
بھارت سے پرامن اور تعمیری تعلقات کا خواہاں ہے۔نگران
وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر
پاکستان اور
بھارت کے درمیان امن کی بنیاد ہے، جموں و
کشمیر کا تنازع سلامتی کونسل کے پرانے تنازعات میں سے ایک ہے،
بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد سے گریز کیا ہے، جو کہتی ہیں
مقبوضہ کشمیر کا حتمی فیصلہ وہاں کے لوگ
اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 سے
بھارت نے غیرقانونی طور پر قبضہ کیے ہوئے جموں و
کشمیر میں اپنی فیصلہ مسلط کرنے کے لیے 9 لاکھ
فوج تعینات کر رکھی ہے، اس حوالے سے
بھارت نے لاک ڈاؤن، کرفیوز نافذ کردیا اور
کشمیر کی سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا، پرامن
احتجاج کو طاقت سے دبایا، جعلی انکاؤنٹرز میں معصوم کشمیریوں کو ماورائے قانون
قتل کیا گیا۔انوار الحق کاکڑ نے کہاکہ اقوام متحدہ
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنی قراردوں پر عمل درآمد یقینی بنائے،
بھارت اور
پاکستان میں فوجی مبصرین کو دوبارہ تعینات کردینا چاہیے، عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ نئی
دہلی کو قائل کریں کہ
پاکستان کی اسٹریٹجک اور روایتی ہتھیاروں کے استعمال سے گریز کی پیش کش قبول کرے۔
انہوں نے کہا کہ
افغانستان میں امن
پاکستان کے لیے اسٹریٹجک حوالے سے اہم ہے،
پاکستان بھی عالمی برادری کی طرح
افغانستان میں خواتین کے حقوق سے متعلق تشویش میں شامل ہے جبکہ افغان عوام کی انسانی بنیاد پر امداد کی وکالت بھی کرتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ
پاکستان کی اولین ترجیح ہے کہ
افغانستان سے ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی روکنا ہے،
پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی
(تحریک طالبان پاکستان)،
داعش اور
افغانستان سے سرگرام دیگر گروپس کی دہشت گردی کی مذمت کرتا۔
نگران
وزیراعظم نے کہا کہ
پاکستان شام اور
یمن میں تنازعات کے خاتمے کا خیرمقدم کرتا ہے، خاص طور پر
سعودی عرب اور
ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے
فلسطین میں
اسرائیل فوج کی کارروائیاں، فضائی حملے، آبادکاری میں توسیع اور فلسطینیوں کے انخلا کے ساتھ ظلم جاری ہے ،پائیدار امن صرف دو ریاستی حل سے ممکن ہے اور 1967 سے قبل کی سرحدوں کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام سے امن ہوگا، جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہمیں بڑھتی ہوئی انتہائی دائیں بازو کے انتہاپسند اور فاشسٹ گروپس سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کا بلاامتیاز انسداد کرنا چاہیے، ہندو توا سے متاثر انتہاپسند
بھارت کے مسلمانوں اور عیسائیوں کی نسل کشی کی
دھمکی دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ریاستی دہشت گردی کی بھی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے، دہشت گردی کی اصل وجہ پکڑ لی جائے، جیسا کہ غربت، ناانصافی اور بیرونی قبضہ شامل ہے اور حقیقی آزادی کی تحریکوں اور دہشت گردی میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔
نگران
وزیراعظم نے کہاکہ
پاکستان عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی کے چاروں ستونوں پر متوازن عمل درآمد کے لیے جنرل
اسمبلی کی کمیٹی کے قیام کا خیرمقدم کرتا ہے، ہماری تاریخ تعاون سے بھری ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ تہذیبوں کا تصادم بڑھانے کے بیانیے سے انسانی ترقی کو بڑی حد تک
نقصان ہوا ہے، اس طرح کے خیالات سے انتہاپسندی، نفرت اور اسلاموفوبیا سمیت مذہبی عدم برداشت بڑھی ہے۔
نگران
وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں وسعت اور زندگی کے انداز پر خوش ہونا چاہیے، باہمی احترام، مذہبی شعائر کی حرمت یقینی بنانا چاہیے۔انہوںنے کہاکہ نائن الیون حملوں کے بعد یہ مسلمانوں کی منفی تصویر کشی، مسلمانوں اور مسلمانوں کی علامتوں پر حملے کرکے تفریق کو فرض کرلیا گیا ہے، جس کی تازہ مثال قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کے واقعات ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس اس
اسمبلی نے او آئی سی کے توسط سے
پاکستان کی تجویز کردہ
قرارداد منظور کی تھی اور 15 مارچ کو انسداد اسلاموفوبیا کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا، اسی طرح رواں برس کے اوائل میں ہیومن رائٹس کونسل نے او آئی سی کی
قرارداد منظور کی، جس سے
پاکستان نے پیش کیا تھا، جس میں ریاستوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ قرآن کو نذر آتش کرنے اور اس طرح کے اقدام کے لیے اکسانے کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔