این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیئر کم کرنے کی کوئی تجویز ان کے علم میں نہیں ہے، صوبوں کے شیئرز کو آئینی تحفظ حاصل ہے،وزیراعلیٰ سندھ

1991 کے معاہدہ آب کے خلاف کوئی آب پاشی منصوبہ نہیں بن سکتا، اس وقت بھی سندھ کو پانی کی 37 فیصد کمی کا سامنا ہے، سندھ میں امن و امان کی صورت حال یقینا اطمینان بخش نہیں ہے لیکن ہم بچوں اور عورتوں کو اغوا کرکے دلیر ہونے کا دعوی کرنے والے ڈاکوئوں کے سامنے بے بس نہیں ،مراد علی شاہ

اتوار 12 مئی 2024 22:20

�یدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 مئی2024ء) وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیئر کم کرنے کی کوئی تجویز ان کے علم میں نہیں ہے، صوبوں کے شیئرز کو آئینی تحفظ حاصل ہے، 1991 کے معاہدہ آب کے خلاف کوئی آب پاشی منصوبہ نہیں بن سکتا، اس وقت بھی سندھ کو پانی کی 37 فیصد کمی کا سامنا ہے، سندھ میں امن و امان کی صورت حال یقینا اطمینان بخش نہیں ہے لیکن ہم بچوں اور عورتوں کو اغوا کرکے دلیر ہونے کا دعوی کرنے والے ڈاکوئوں کے سامنے بے بس نہیں ہیں، پہلے بھی ڈاکوئوں اور دہشت گردوں پر قابو پایا تھا اب بھی ان کا قلع قمع کر کے رہیں گے، میڈیا ڈاکوئوں کی مجرمانہ سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بجائے حکومت کا ساتھ دے، سیلاب متاثرین کے لئے 21 لاکھ گھر تعمیر کرنے اور منشور کے مطابق 300 یونٹ بجلی مفت دینے کے منصوبوں پر کام جاری ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ حیدرآباد سکھر موٹر وے کی تعمیر کے منصوبے کو سی پیک میں شامل کیا جائے۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ حیدرآباد پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں، اس موقع پر پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو جنرل سیکریٹری وقار مہدی، صوبائی وزراء، شرجیل میمن، ناصر شاہ، جام خان شورو، میئر کاشف شورو، ڈپٹی میئر صغیر قریشی بھی موجود تھے۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ 2024 کے انتخابات میں سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کو شاندار کامیابی دلائی، جس کے بعد پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ہمیں ہدایت کی کہ یوسیز کی سطح پر کارکنوں کے پاس جائیں اور ان کا شکریہ ادا کریں، وزیراعلی نے کہا کہ حیدرآباد پریس کلب ہاسنگ سوسائٹی کے لئے سابقہ دور میں صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر سندھ حکومت نے زمین دلائی تھی اور پھر جو بھی مسائل درپیش رہے ان کے حل کے لئے بھی سندھ حکومت مدد کرتی رہی، اب پریس کلب کے عہدیداروں نے ہائوسنگ اسکیم میں ترقیاتی کاموں کے لئے امداد کی درخواست کی ہے میں اس سلسلے میں وزیر بلدیات سعیدغنی کو آج ہی ہدایات جاری کروں گا۔

سینئر صحافی جان محمد مہر کے اصل قاتلوں کی عدم گرفتاری کے سوال پر مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ المناک واقع ہماری سابقہ حکومت کے آخری دنوں میں پیش آیا تھا اور ہماری حکومت نے ہی کچھ سہولت کاروں کو گرفتار کیا تھا تاہم یہ درست ہے کہ اصل قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ کچے کے علاقے میں روپوش ہیں، حکومت ان اصل قاتلوں کی گرفتاری کے لئے تمام اقدامات کر رہی ہے، اس سلسلے میں کوئی سیاسی مصلحت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

وزیر اعلی مرا د علی شاہ نے صوبے میں امن و امان کے حوالے سے سوال پر کہا کہ میں سہیون کا رہنے والا ہوں ہم جب 2007 میں گھر سے نکلتے تھے تو اس وقت بھی ہمیں روک دیا جاتا تھا کہ پولیس اور آرمی کی حفاظت میں کانوائے کے ساتھ سفر کریں، آمر ضیا الحق کے دور میں سندھ میں اس سے بھی بدتر صورت حال تھی ، میں یہ نہیں کہتا کہ صورت حال اطمینان بخش ہے لیکن بہتر ضرور ہے، ہماری سابقہ حکومت کے آخری دنوں میں کچے میں اور کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے حالات خراب ہونا شروع ہوئے تھے ہم نے بھرپور کاروائی سے جن پر بہت حد تک قابو پا لیا تھا، میڈیا کو چاہیے کہ وہ گذشتہ سال 11 اگست ہماری حکومت کے آخری روز کے اغوا برائے تاوان کے اعداد و شمار دیکھ لیں اور پھر اس سال 28 فروری کو میرے دوبارہ وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف اٹھانے تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لے لیں، ان پر واضح ہو جائے گا کہ نگراں حکومت کے دور میں اغوا برائے تاوان کے واقعات میں کتنا اضافہ ہوا، انہوں نے کہا کہ امن و امان کی مکمل بحالی کے لیے حکومت پوری طرح کام کررہی ہے، تمام عوامی حلقوں کو حکومت کی مدد کرنی چاہئے، مگر بہت معذرت کے ساتھ میڈیا ڈاکوئوںکی سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، معصوم بچوں کو زنجیروں سے باندھ کر ان پر تشدد کرنے والے اور عورتوں پر ظلم ڈھانے والے ڈاکو بہادر نہیں دراصل وہ بذدل ہیں، جس بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کی ڈاکوئوں نے ویڈیو جاری کی تھی اسے چند دن پہلے پولیس نے بازیاب کرا لیا تھا لیکن اس کے بعد میڈیا نے ایسی ہی ایک اور ویڈیو دکھانا شروع کر دی جو کہ دو تین سا ل پرانی تھی، یہ رویہ مناسب نہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حالات اطمینان بخش نہیں لیکن میڈیا کو حکومت کی مدد کرنی چاہیے اور عوام کو امید دلانی چاہئیے، ہم ڈاکوئوں کے مقابلے میں بے بس نہیں ہیں، بے بس وہ مجرم ہیں جو بچوں بوڑھوں اور غریبوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ان پر ظلم کرکے تاوان طلب کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے پہلے بھی ڈاکوئوں اور مجرموں پر قابو پایا تھا، ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں ڈاکوئوں اور دہشت گردوں نے سندھ کو یرغمال بنا رکھا تھا، شاہرائیں محفوظ نہیں تھیں اور کانوائے چلتے تھے، لیکن ہم نے ڈاکوئوں اور دہشت گردوں کو جنم رسید کرکے امن بحال کیا تھا، ہماری آمرانہ نہیں جمہوری حکومت ہے، ہم امن کے تمام دشمنوں کا قلع قمع کر کے رہیں گے۔

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ میں اس وقت بھی نہری پانی کی 37 فیصد کمی ہے، تاہم گذشتہ سال سے صورت حال بہتر ہے، آبپاشی کا کوئی پروجیکٹ بھی 1991 کے معاہدہ آب کے خلاف نہیں بن سکتا، میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ پانی کی تقسیم میں صوبوں کے شیئرز میں کوئی رد و بدل کیا جا رہا ہے، ایسا کرنا غیرآئینی اور غیرقانونی ہو گا، مراد علی شاہ نے کہا کہ میری وزیر اعظم اور وفاقی وزیر خزانہ سے تفصیلی ملاقاتیں ہو چکی ہیں کسی نے کوئی اشارہ تک نہیں کیا کہ این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے میں کوئی تبدیلی یا صوبوں کے حصے میں کوئی کمی کی جا رہی ہے، صدر آصف علی زرداری نے اپنے اختیارات کم کرنے کے لئے جو اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کرائی تھی اس میں یہ واضح ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے میں کوئی کمی نہیں کی جا سکتی، البتہ اضافہ ہو سکتا ہے، یوں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔

وزیر اعلی مراد علی شاہ نے ایک سوال پر کہا کہ وفاقی حکومت کو سندھ یا دوسرے صوبوں سے یہ شکوہ رہا ہے کہ بجلی کے بل ادا نہیں کئے جاتے، اس پر کئی مرتبہ وفاقی حکومت سے بات ہوئی ہے اور ہمارا موقف یہ رہا ہے کہ بل دینے والے صارفین پر نادہندگان کا بوجھ ڈال کر انہیں سزا نہیں دی جا سکتی، انہوں نے کہا کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت 60 سے 70 روپے تک پہنچ رہی ہے، متوسط طبقات کے لئے بھی یہ ناقابل برداشت ہو رہی ہے اس لئے عوام احتیاط سے بجلی کا استعمال کریں اور جو بل ادا نہیں کرتے وہ بھی بل ادا کریں، ہم بجلی کے حوالے سے صوبے میں اپنے معاملات درست کرکے وفاقی حکومت سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کم کرائیں گے کیونکہ واقعی اس سے بہت نقصان ہو رہا ہے، ہم پہلے بھی اس کے لئے کوششیں کرتے آ رہے ہیں۔

وزیر اعلی مراد علی شاہ نے کہا کہ ہمارا اب بھی مطالبہ ہے کہ سکھر حیدرآباد موٹروے کی تعمیر کے منصوبے کو انٹرنیشنل فنڈنگ خصوصا سی پیک میں شامل کیا جائے، جب پشاورسے لاہور اور لاہور سے ملتان کے موٹروے منصوبے کو سی پیک میں شامل کیا جا سکتا ہے کہ تو حیدرآباد سکھر موٹروے کی تعمیر کو سی پیک میں شامل کرنے میں کیا پریشانی ہے، انہوں نے کہا کہ حیدرآباد کراچی نام نہاد موٹر وے سمیت سندھ کی شاہرائوں کے کئی منصوبوں پر چیئرمین این ایچ اے سے چند روز قبل تفصیلی اجلاس ہوا تھا، اندرون صوبہ کی شاہرائیں بہت حد تک اچھی ہیں لیکن نیشنل ہائی وے کی حالت ٹھیک نہیں ہے جو وفاقی حکومت کے تحت ہے، انہوں نے کہا کہ جب ہم وفاقی حکومت اور این ایچ اے کے ساتھ سندھ میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی طرف سے سندھ کی شاہرائوں کی تعمیر و مرمت کے اخراجات کا معاملہ اٹھاتے ہیں تو ان کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں کیونکہ زیادہ تر انٹرنیشنل فنڈنگ اور سی پیک کے منصوبے دیگر صوبوں میں بنائے گئے ہیں، ہماری طرف سے اس مسئلے کو اٹھائے جانے پر ہی نگراں وفاقی حکومت نے یہ وقف اپنایا کہ اب وفاقی حکومت صوبوں میں شاہرائوں کی تعمیر کا کوئی کام نہیں کرائے گی، اس طرح ہماری باری آنے پر وفاق نے بالکل جواب دے دیا۔

سید مراد علی شاہ نے کہاکہ یہ درست ہے کہ سول ہسپتال حیدرآباد اور دیگر ہسپتالوں میں طبی سہولتیں زیادہ معیاری اور طلب کے مطابق نہیں ہیں، تاہم ہم نے این آئی سی وی ڈی سمیت صحت کے کئی معیاری ادارے قائم کئے ہیں لیکن اب سندھ حکومت کی تمام تر توجہ مقامی ڈسپنسریوں، بیسک ہیلتھ یونٹس، تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کو فعال کرنے اور ان کے معیار کو بہتر بنانے پر مرکوز کئے ہوئے ہے، ہماری سوچ یہ ہے کہ ساری سہولتیں نچلی سطح پر میسر آنی چاہئیں تاکہ این آئی سی وی ڈی، جے پی ایم سی اور گمبٹ جیسے دور دراز بڑے ہسپتالوں میں لوگوں کو جانا نہ پڑے، وزیر اعلی نے یقین دلایا کہ وہ کوہسار میڈیکل کالج کی عمارت کی تکمیل اور اس کی ضرورت کا بھی جائزہ لیں گے، وہاں ڈاکٹروں کی ضرورت ہو گی تو اس کو بھی پورا کیا جائے گا۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ بلاول بھٹو کے پیش کردہ منشور پر ترجیحا عمل ہو رہا ہے، 2022 کا سیلاب 2010 اور 2011 کے سیلاب کے مقابلے میں زیادہ تباہ کن تھا، سیلاب متاثرین کی بحالی کے ساتھ چیئرمین بلاول بھٹوی زرداری نے 21 لاکھ گھرانوں کو گھر تعمیر کر کے دینے کا اعلان کیا تھا جس کے لئے فنڈنگ کا بھی انتظام کر لیا گیا ہے، ایک لاکھ گھر بن چکے ہیں اور 6 لاکھ پر کام جاری ہے، انہوں نے کہا کہ منشور کے مطابق 5 سال میں پینے کا صاف پانی ہر گھر تک پہنچائیں گے جس پر کام جاری ہے، حیدرآباد کی ضرورت کے مطابق روزانہ 121 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جانا چاہیے مگر اس وقت یومیہ 61 ایم جی ڈی پانی مہیا کیا جا رہا ہے، جو اچھی صورت نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ تعلیم کے فروغ پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، 60 ہزار اساتذہ بھرتی کئے گئے تھے جن کی ٹریننگ آخری مرحلے میں ہے، جبکہ کسان کارڈ جاری کرنے کے لئے بھی محکمہ زراعت کام کر رہا ہے، اسی طرح لیبر کارڈ جاری کے اجرا پر بھی توجہ دی جا رہی ہے، انہوں نے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد کے میئر پیپلز پارٹی کے ہیں، حیدرآباد کی قومی اسمبلی کی تین نشستوں میں سے ایک پیپلز پارٹی نے جیتی تھی آئندہ تینوں نشستیں جیتیں گے، جبکہ صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں پیپلز پارٹی نے جیتیں تھیں ایک کے خلاف عذر داری دائر کی گئی ہے، اس طرح پیپلز پارٹی کراچی اور حیدرآباد کی ترقی کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے اور ہم اس پر پوری توجہ دے رہے ہیں۔

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 300 یونٹس بجلی مفت دینے کا جو وعدہ کیا تھااس پر کام جاری ہے، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ تھر سے کوئلے کی ترسیل کے لئے ریلوے لائن بچھانے کا کام جلد شروع ہوجائے گا، وزیر اعظم شہباز شریف نے کراچی کے حالیہ دورے کے موقع پر اس پروجیکٹ پر کام شروع کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے، وفاقی حکومت کے ساتھ ریلوے لائن بچھانے کے لئے سندھ حکومت بھی مالی مدد کرے گی، انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت وفاق سے تعاون کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہی ہے، ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسٹیل مل کے لئے کھربوں روپے مالیت کی زمین صرف 20 فیصد قیمت پر وفاق کو دی تھی، انہوں نے کہا کہ صوبے میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زون بھی قائم کر رہے ہیں، ایک سوال پر وزیراعلی سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت ڈرگ مافیا کے خلاف بھرپور آپریشن کر رہی ہے، منشیات جہاں سے آ رہی ہے وہیں سے اس کو روکنا ہو گا، ہمیں اپنے بچوں کو منشیات کی لعنت سے بچانا ہے، حکومت کے ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو منشیات سے بچائیں، ایک سوال پر مراد علی شاہ نے کہا کہ گورنر کی تبدیلی کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے، اس میں میرا کوئی کردار یا اختیار نہیں، ہم ایم کیو ایم سمیت اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔