Live Updates

پاکستانی سیاست میں مظاہروں اور دھرنوں کا مرکزڈی چوک

نوازشریف‘بے نظیربھٹوسمیت اہم سیاسی شخصیات اور جماعتیں یہاں مظاہرے اور دھرنے کرچکے ہیں.رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 27 نومبر 2024 12:55

پاکستانی سیاست میں مظاہروں اور دھرنوں کا مرکزڈی چوک
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 نومبر۔2024 ) وفاقی دارالحکومت میں دو دن تک میدان جنگ بنا رہنے والا ڈی چوک سرکاری دستاویزات میں” ڈیموکریسی چوک“کہلاتا ہے جسے مختصرکرکے ڈی چوک کا نام دیا گیا ہے جو اسلام آباد کے مرکز میں جناح ایوینیو اور شاہراہِ دستور کے سنگم پر واقع ہے اور اس کے اطراف میں کئی اہم عمارتیں واقع ہیں جن میں وزیر اعظم ہاﺅس، ایوان صدر، پارلیمان، سپریم کورٹ شامل ہیں جبکہ ڈپلومیٹک انکلیو اور دفترخارجہ سمیت تقریبا تمام اہم ترین سرکاری عمارتیں اس کے گردونواح میں واقع ہیں.

(جاری ہے)

کئی دہائیاں پہلے یہ جگہ پریڈ گراﺅنڈ کے نام سے جانی جاتی تھی جہاں یوم پاکستان‘یوم آزادی اور یوم دفاع کے مواقع پرفوجی پریڈز منعقد کی جاتی تھیں تاہم بڑھتے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر پریڈز کا انعقاد اب نہیں ہوتا تاہم اس جگہ کی اہمیت اب بھی برقرار ہے اب یہاں پریڈز کی جگہ جلسے، جلوس اور ریلیاں ہوتی ہیں. ڈی چوک کی ملکی سیاست میں اہمیت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قیام سے رہی ہے جبکہ 1980 کی دہائی میں جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے خلاف پیپلزپارٹی سمیت حزب اختلاف کی جماعتیں یہاں احتجاج کرتی رہی ہیں ڈی چوک میں پہلا بڑا احتجاج جولائی 1980 میں ایک مذہبی گروہ نے جنرل ضیاالحق کی جانب سے لگائے گئے ٹیکسوں کے خلاف کیا تھا یہ دھرنا کئی دن تک جاری رہا جس کے بعد سے ڈی چوک سیاسی جماعتوں اورسماجی تنظیموں کے لیے احتجاج ریکارڈ کروانے کا اہم ترین مرکزبن گیا .

سال 1989 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں نے یہاں احتجاج کیااور دھرنا دیا جبکہ 1990 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف 1992 میں یہاں مظاہرے کیے گئے 1993 میں سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے لیے ڈی چوک پر ایک مارچ کی قیادت کی 2009 میں سابق فوجی حکمران جنرل مشرف کے خلاف شروع ہونے والی وکلا تحریک کا اختتام بھی یہیںپر ہواتھا.

اس سے قبل جماعت اسلامی کے تاریخی لانگ مارچ ‘نوازشریف حکومت کے خلاف پیپلزپارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد جی ڈی اے کے احتجاجی مظاہرے‘مارچ اور دھرنے بھی ڈی چوک میں ہوتے رہے ‘میثاق جمہوریت کے بعد نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے چھوٹی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد اور اس کے بعد عمران خان کی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اس وقت کی حزب اختلاف کی جماعتوں مسلم لیگ نون‘پیپلزپارٹی اور جے یوآئی سمیت دیگر جماعتیں بھی احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے ڈی چوک کا رخ کرتی رہی ہیں سال2014میں پاکستان تحریک انصاف اور ڈاکٹرطاہر القادری کی عوامی تحریک نے یہاں 120 دن تک دھرنا دیا تھا تاہم 2016 میں حکومت نے اس جگہ پر مظاہروں پر پابندی عائد کردی اور بڑے اجتماعات کا انعقاد روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے تمام تر پابندیوں کے باوجود اب بھی ڈی چوک پر آئے دن مظاہرے ہوتے رہتے ہیں.


Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات