بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں نیشنل ایکشن پلان 2 بنانے کامطالبہ کردیا

عالمی طاقتیں، دہشت گرد اور پاکستان کے دشمن ہماری نااتفاقی کا فائدہ اٹھارہے ہیں، ٹرین حادثہ پر فورسز کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بہت بڑے سانحہ سے بچا لیا، چیئرمین پیپلزپارٹی کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال

Faisal Alvi فیصل علوی جمعرات 13 مارچ 2025 14:41

بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں نیشنل ایکشن پلان 2 بنانے ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13 مارچ 2025)پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں نیشنل ایکشن پلان 2 بنانے کامطالبہ کردیا،عالمی طاقتیں، دہشت گرد اور پاکستان کے دشمن ہماری نااتفاقی کا فائدہ اٹھارہے ہیں، ٹرین حادثہ پر فورسز کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بہت بڑے سانحہ سے بچا لیا، قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ دہشتگردی کوئی نیا مسئلہ نہیں۔

دہشتگردی کا بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے کا الگ الگ تناظر ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے نیشنل ایکشن پلان ون بنایا۔وزیراعظم شہباز شریف نیشنل ایکشن پلان کیوں نہیں بنا سکتا۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں بلوچستان کو حقوق دیئے۔

(جاری ہے)

ہم نے آئین کو نہ ماننے والوں کا مقابلہ وزیرستان سے لیکر بلوچستان تک مقابلہ کیا۔ ہماری تقسیم کا قائدہ دشمن ملک اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس پر سیاست ایک طرف رکھ کر قومی مفاد کو ترجیح دی۔ آج ہم ماضی سے زیادہ خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ اے پی ایس کے واقع پر ہم نے سیاست کو ایک جانب رکھ کر نیشنل ایکشن پلان کو مانا۔ ہم نے ملک سے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی تھی۔پیپلزپارٹی ہرطرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ دہشتگردی کی وجہ سے پاکستان اور پیپلزپارٹی نے بہت نقصان اٹھایا۔

مجھے وزیراعظم کے گھر سے اغواء کرنے کی کوشش کی گئی۔دہشت گردی کی وجہ سے بینظیر بھٹو شہید ہوئیں۔ مذہبی دہشت گردی ہویا علیحدگی پسندی کی دہشتگردی ہو۔پیپلزپارٹی سب کی مخالفت کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی سے زیادہ دہشتگردی کس نے بھگتی ہے۔پاکستان مین دہشتگردی کامسئلہ نیا نہیں ہے، پاکستانی قوم نے مل کر ملک کو دہشتگردی سے پاک کردیا تھا۔پاکستان کے ہر شہری نے اس جنگ میں اپنا حصہ ڈال کر دہشتگردی سے پاک کیا۔

عام شہری سے لیکر پولیس اور فوج ایسا کوئی نہیں جس نے اس جنگ میں قربانی نہ دی ہو۔ یہ ایوان جب متحد تھا تو تحریک انصاف کی الگ سیاست تھی۔ اے پی ایس کے واقع پر ہم نے سیاست کو ایک جانب رکھ کر نیشنل ایکشن پلان کو مانا۔ ہم نے ملک سے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی تھی۔ ہم نے دہشتگردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ آج پھر سے وہی دہشتگردی سر اٹھا رہی ہے۔اس وقت ماضی سے زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔

ماضی جیسا اتفاق رائے اب نہیں ہورہا ہے۔ ہمارے اختلاف کا فائدہ دشمن قوتیں اٹھا رہی ہیں۔ ایک کے بعد ایک دہشتگردی کا واقعہ ہورہا ہے۔ ہر دہشتگردی کا اگلا واقعہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مگر افسوس ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی کامیابی کھو بیٹھے ہیں۔ دہشت گردی کی آگ پھر سے جل اٹھی ہے۔، ہم دہشت گردی کے خلاف ماضی کی طرح سیاسی اتفاق رائے نہیں بناسکے ہیں، ہماری کمزوریوں کی وجہ جو بھی ہو۔

دہشت گردوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، کوئی سیاست نہیں ہوتی۔ مذہبی دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ان تمام تنظیموں کا نام جو بھی ہو ان کا مقصد دہشت پھیلانا اور لوگوں کو قتل کرنے ہوتا ہے نہ تو مذہبی دہشت گرد اسلامی ریاست چاہتا ہے نہ ہی نام نہاد بلوچ دہشت گرد اپنی آزادی اور حقوق چاہتے ہیں۔ وہ خون خرابہ کرتے ہیں اور پاکستانی عوام کی ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں اور جو بین الاقوامی قوتیں انہیں مالی اور لاجسٹکل سپورٹ فراہم کررہی ہیں ان کے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

بلوچستان کے عوام اپنے حقوق مانگ رہے ہیں، دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے آپرئشنز کرنے پڑتے ہیں، آپریشنز میں اجتماعی نقصان نہیں ہونا چاہئے، دہشتگرداپنےمقاصدکی طرف بڑھ رہے ہیں، بلوچستان میں لگی آگ پہلے پاکستان پھر دنیا میں پھیلے گی،مذمت میں تو ہم سب ساتھ ہیں ردعمل میں بھی ساتھ ہونا چاہئے۔