Live Updates
ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ماضی میں کئے گئے فیصلوں کی وجہ سے ملک میں جمہوری ادارے مضبوط نہیں ہوسکے ،لیاقت ساہی
سیاسی پارٹیوں نے بھی پارلیمنٹ میں جاکر وہ کردار ادا نہیں کیا جو انہیں دستور کی روشنی میں کرنا چاہئے تھا ،سیاسی و سماجی رہنما
اتوار 23 مارچ 2025
13:55
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 مارچ2025ء)سیاسی وسماجی رہنما لیاقت علی ساہی نے قرار داد پاکستان پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی اہمیت کا اندازہ 23 مارچ 1940 میں منظور کردہ سیاسی رہنماں کی طرف سے ہے کہ اجلاس میں پیش کردہ مطالبہ تھا کہ برصغیر کی تقسیم ناگزیر ہو چکی ہے انگریز سامراج سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے پاکستان کی آزاد مملکت کا وجود میں عمل لایا جائے ، اس پر اتفاق ہوا کہ پاکستان کی آزاد مملکت کے حصول کیلئے سیاسی جدوجہد کی جائے گی ۔
اس سے قبل کامریڈ بگھت سنگھ اور ان کے ساتھی مسلسل انگریز سامراج کے خلاف متحرک تھے ان سپوتوں کی جدوجہد بھی ظلم وبربیت کے خلاف تھی لیکن انگریز سامراج نے ان کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں پیش کیا اور اپنے ٹاٹوں کے ذریعے برصغیر کی ریاست پر قابض اقتدار پر تھے جس کی واضح مثال جلیاں والہ باغ میں ہونے والا وہ عوامی اجتماع تھا جس میں انگریز سامراج کو چیلنج کیا جارہا تھا کہ برصغیر کی عوام کو حق دیا جائے کہ وہ اپنے نمائندوں کا چنائو کرکے حکمرانی کا حق دیں لیکن انگریز سامراج نے معصوم لوگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرکے سینکڑوں نہتے سیاسی ورکروں کی سانسیں چھین لی لیکن ایک وقت آیا کہ قرارداد پاکستان پاس ہوتی ہے اس وقت ممکن ہے کچھ لوگوں کو قرارداد ایک پیپر کا ٹکڑا نظر آتاہولیکن ٹھیک سات سال بعد اسی قرارداد کی روشنی برصغیر کی نہ صرف تقسیم ہوتی ہے جس میں پاکستان کی ریاست کا وجودعمل میں آتا بلکہ انگریز سامراج کی حکمرانی کا سورج بھی غروب ہوتا ہے ۔
(جاری ہے)
آج کے دن کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے بزرگوں کی کاوشوں اور قربانیوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے جن کی سیاسی جدوجہد اور جانوں کی قربانیاں ہمارے لئے پاکستان حاصل کرنے کیلئے دیں تھیں اس تاریخی کامیابی کوسامراج قوتیں پہلے دن سے تسلیم نہیں کرتی یہی وجہ ہے کہ ہمارے درمیان میں سے کچھ لوگوں کے ضمیر خرید کر ریاست پاکستان کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں کبھی آزاد پختونستان کا نعرہ لگاتے ہیں ، کبھی جئے سندھ کی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں اور کبھی بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں ان تمام لوگوں کویہ نہیں معلوم ہے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد ریاست پاکستان کے فراہم کردہ دستور کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن حقوق کے نام پرآزادی کا نعرہ لگانا کے ریاست پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کرنا ریاست پاکستان کے ساتھ غداری کے مترادف ہے ۔
اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ماضی میں کئے گئے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک میں جمہوری ادارے مضبوط نہیں ہوسکے بلکہ اسٹیبلشمنٹ اپنی منشا کے مطابق جمہوریت کو کنٹرول کرنے کی خاطر من پسند لوگوں مسلط کرتے رہی ہے جس کی وجہ سے ریاست کے ادارے ریاستی قوانین پر عمل درآمد کرنے کے بجائے طاقت کے بل بوتے پر پالیسی مرتب کرکے اداروں کو تباہی کے ذمہ دار ہیں جس میں کرپشن اور من پسند غیر آئینی پالیسیاں ہیں جس نے مزدوروں ، کسانوں ، طلبہ اور سول سوسائیٹی کی آواز کوہمیشہ دبانے کی کوشش کی ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ اور جوڈیشری کے گٹھ جوڑ نے ملک کے دستور کی خلاف ورزیاں بھی اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے کی ہیں جوکہ جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنیں ہیں ۔
سیاسی پارٹیوں نے بھی پارلیمنٹ میں جاکر وہ کردار ادا نہیں کیا جو انہیں دستور کی روشنی میں کرنا چاہئے تھا ۔ ذولفقار علی بھٹو نے بھی سیاست کا آغاز جنرل ایوب سے اختلاف کی صورت میں کیا اور عوامی لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اس جوڈیشری سے ایک جھوٹے مقدمے سزائے موت دلواکر جمہوریت کا بہت بڑا نقصان کیا ، میاں نواز شریف نے جنرل ضیا الحق کے اقتدار میں سیاست کا آغاز کیا لیکن جب وہ عوام کے ووٹ سے ایک عوامی لیڈر کی حیثیت اختیار کرکئے تو تین بار حکومت سے محروم اسٹیبلشمنٹ نے کیا ، شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے بابا کے سیاسی ورثہ کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ پارٹی کو مضبوط کرکے ایک بین القوامی سطح کی لیڈر کی حیثت کو تسلیم کروایا انہیں بھی اسٹیبلشمنٹ نے دو مرتبہ اقتدار سے محروم کیا جب وہ تیسری مرتبہ ورزیراعظم بننے جارہی تھی تو اسٹیبلشمنٹ نے انہیں قتل کروا دیا ایک بڑی لیڈر کو بغیر سیکورٹی کے نہتی کرکے دہشت گردوں کے سامنے پھینک دیا گیا اس کے بعد عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے تیار کرکے اقتدار میں لے آئے لیکن وہ جب تک اقتدار میں رہے تو اسٹیبلشمنٹ کی تعریفیں کرتے رہے جیسے ہی اقتدار سے محروم ہوئے تو نیوٹرل کو جانور قرار دینا شروع کردیا جو کہ اس کی سیاسی بلنڈر تھا اسے چاہیے تھا سیاسی طور پر مقابلہ کرتے اور عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی پر اپوزیشن میں بیٹھ کر سیاسی جدوجہد کرتے لیکن ایسا نہ ہوا جو ملک میں انتشار کا سبب بنا اس سے قبل بھی میاں نواز شریف اور شہید محترمہ بینیظر بھٹو اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا سیاسی طور پر مقابلہ کرتے رہیں اور سیاسی جدوجہد کی بنیاد پر پھر اقتدار حاصل کرتے رہیں لیکن عمران خان نے قومی سلامتی جیسے ملکی سطح پر مسائل پر بھی پارلیمنٹ کی سطح پر ہونے والے اجلاس میں شرکت نہ کرکے اپنا حصہ ڈالنے سے راہ فرار اختیار کی جب کہ عوام نے ووٹ ملک کی سلامتی کیلئے دئیے ہیں سیاست اور عوامی مطالبہ عمران خان سے بھی یہ ہے کہ بیرون ممالک میں یوٹیوبر کے بیانیہ پر سیاسی حکمت عملی پر نظرثانی کریں اداروں کے خلاف شوشل میڈیا کے ذریعے ملک دسمن قوتوں کا حصہ بننا قرارداد پاکستان کی نفی ہے بلکہ ملک کے دستور کی بھی خلاف ورزی ہے جسے کسی بھی صورت میں عوام تسلیم نہیں کرے گی البتہ سیاسی جدوجہد کریں وہ بھی ملک کے دستور کے مطابق تو کسی کو ئی اعتراض نہیں ہوگا ایسا نہ ہو کہ پلں کے نیچے سے پانی اد قدر بہہ جائے کہ پھر پھچتاوے علاوہ آپ کے پاس کچھ نہ بچے ۔
ملک میں جاری دہشت گردی کسی بھی صوبے میں ہو اٹھارویں ترمیم کے بعد لا اور آرڈر کو قائم رکھنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن صوبوں کی خودمختاری کے باجود اس کا ذمہ دار وفاق کو ٹھہرایا جانا مناسب نہیں ہے جو کہ اگر صوبے یہ ذمہ داری ادا نہیں کرسکتے تو آئین میں ترمیم کرکے اس کی تشکیل نو کرلی جائے لیکن بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے شناختی کارڈ کی بنیاد پر ان کا قتل کرنا عام شہریوں کو بسوں سے اتار کرقتل کرنا کہاں کے حقوق ہیں ۔
قرار داد پاکستان اس طرح کی منفی سرگرمیوں اور ملک دشمن سازشوں کی نفی کرتی ہے اور سیاسی جدوجہد کو تقویت دیتی ہے ، بلوچستان کے سردار پاکستان کے جنم سے لے کر اقتدار میں ہیں اگر صوبے میں محرومی ہے تو ان کا ذمہ دار یہ لوگ ہیں اٹھارویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والے اربوں روپے عوام پر خرچ کیوں نہیں کئے گئے صوبوں کی عوام کے حقوق کی فراہمی کو یقینی کیوں نہیں بنایا گیا یہ سوال بہت تلخ ہیں لیکن سیاسی مصلحتوں کے تحت اقتدار پر براجمان ٹولہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے سیاسی پارٹیوں کو بھی اپنی جاری روش کو تبدیل کرنا ہوگا میرٹ لانی ہوگی اور حکومتی سطح پر گورننس کو بہتر کرنا ہوگا ۔
پاکستان اور عوام کے تحفظ کی خاطر ہمارے بچے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے دوسری سوشل میڈیا پر چند ٹکوں کی خاطر باہر بیٹھے ہوئے ملک دشمن عسکری اداروں پر ان کے خلاف منفی پراپگنڈا کررہے ہیں چیف آف آرمی اسٹاف کی فیملی کے خلاف نازیبا تصویریں ، مریم نواز کی کردار کشی کرنا اور بلاول بھٹو کے خلاف ذاتیات پر منفی پراپگنڈا کرنے والوں کی سخت مذمت کرتے ہیں اور ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں اس کی منفی سرگرمیوں کے خلاف سخت اقدام کئے جائیں ۔ تمام مکاتب فکر ایک بار پھر قرارداد پاکستان کے بنیادی فلسفے کو اجاگر کرکے اجتماعی مقاصد کے حصول کیلئے آواز بلند کریں۔
عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات