اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اپریل 2025ء) سیاسی مبصرین کے مطابق ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ نواز شریف بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے اپنی بات منوا سکتے ہیں؟
تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ نون کے صدر میاں نواز شریف سے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایک چھ رکنی وفد کے ہمرا بدھ کے روز جاتی عمرہ میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔
بلوچ لیڈروں کی اس ملاقات میں سینیٹر جان محمد بلیدی، ممبر قومی اسمبلی پھلین بلوچ، سردار کمال خان بنگلزئی، اسلم بلوچ، شاوس خان بزنجو اور ملک ایوب شامل تھے۔ اس ملاقات میں پاکستان مسلم لیگ نون کی طرف سے احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، اور اویس لغاری، سمیت دیگر نون لیگی رہنما بھی موجود تھے۔(جاری ہے)
ریاست چھینی ہوئی زندگیاں لوٹا دے، سمی دین بلوچ
ڈھائی گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات میں بلوچ رہنماؤں نے نواز شریف کو اختر مینگل کے دھرنے اور بلوچ خواتین کی گرفتاری کے بعد صوبے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے آگاہ کیا اور بلوچ عوام کو درپیش مسائل کے بارے میں آگاہی دی۔
ملاقات میں شامل ایک نون لیگی رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلوچ رہنماؤں کی خواہش پر نواز شریف بلوچستان میں حالات کی بہتری کے لیے کردار ادا کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ ان کے بقول اس موقعے پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ بلوچوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ نواز شریف نے بلوچ رہنماؤں کے وفد کو بتایا کہ وہ اس سلسلے میں شہباز شریف سے بات کریں گے اور یقینی بنائیں گے کہ شہباز شریف اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھیں۔
نواز شریف نے بلوچ رہنماوں کو یقین دلایا کہ وہ بلوچستان کے سیاسی حل پر یقین رکھتے ہیں۔پاکستان: بلوچ عسکریت پسند تنظیموں سے چینیوں کو لاحق خطرات
میاں نواز شریف ایک ہفتے کے لیے لندن جارہے ہیں ۔ لندن سے واپسی کے بعد وہ بلوچستان کا دورہ کریں گے اور دیگر بلوچ جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں گے۔ کہنے کو نواز شریف کا یہ دورہ نجی نوعیت کا ہے لیکن پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہاں ان کی اہم ملاقاتیں بھی شیڈولڈ ہیں۔
نواز شریف دورہ بلوچستان سے پہلے لندن میں کن سے ملنے والے ہیں اس بارے میں ابھی حتمی طور پر کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ڈاکٹر مالک نے کہاکہ صوبے کے عوام کو نوازشریف سے مسائل کےحل کی امیدیں ہیں، بلوچستان کے مسائل کے حل کےلیے مل کر کام کرنا ہوگا،سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں بلوچستان میں جاری دھرنے اور جیلوں میں قید لوگوں سمیت سیاسی معاملات پر تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔
ملاقات کے بعد خواجہ سعد رفیق کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان دو دہائیوں سے خون میں رنگا ہوا ہے اور موجودہ حالات میں نواز شریف کا کردار بہت اہم ہے۔ سعد رفیق نے کہا کہ میاں نوازشریف نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ذاتی طور پر دلچسپی لے کر بلوچستان کے مسائل کا حل نکالیں گے۔بلوچستان: کان کنوں کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟
ابھی کچھ عرصہ پہلے صدر زرداری بھی بلوچستان کا دورہ کرکے بلوچ لیڈروں سے ملاقات کر چکے ہیں۔
یاد رہے پاکستان تحریک انصاف کے ایک وفد نے بھی اختر مینگل کے دھرنے میں جا کر بلوچوں کے لیے اپنی حمایت کا عہد کیا تھا۔ سلمان غنی کے بقول ملک کی سیاسی جماعتوں کا بلوچستان کے لیے متحرک ہونا بہت خوش آئند بات ہے۔ ان کے مطابق اس سے مسائل کے حل کی راہیں نکل سکتی ہیں۔سینیئر کالم نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلوچستان کا مسئلہ طاقت سے نہیں بلکہ سیاسی مفاہمت اور سیاسی مکالمے سے ہی حل ہوگا۔
ان کے خیال میں سیاسی جماعتوں کا آگے بڑھ کر بلوچوں کو انگیج کرنا درست ہے لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس بلوچستان میں کتنا اختیار ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے پاس بلوچستان کی حکومت ہے، ایک پارٹی کا وزیر اعلٰی ہے اور دوسری کا گورنر ہے اب ان لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اور کیا چاہیے۔ سلمان عابد کو یقین نہیں ہے کہ نواز شریف بلوچستان کے بدلے ہوئے حالات میں کچھ زیادہ کارگر ثابت ہو سکیں گے۔ انہوں نے کہا، '' بلوچستان میں سیاسی لوگوں کے پاس اسپیس بہت کم ہے جب تک اسٹیبلشمنٹ سیاسی قوتوں کا ساتھ نہیں دے گی مسلم لیگ نون بھی کچھ نہیں کر سکے گی۔‘‘کوئٹہ میں صاف پانی کی شدید کمی کو کس طرح دور کیا جائے؟
کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بلوچستان میں صورتحال سرداروں اور روایتی سیاست دانوں کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔
جو عام لوگ وہاں سرگرم ہیں ان میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں اور نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے اتحادی اور بینیفشری ہیں اس کے علاوہ نواز شریف کا مینڈیٹ بھی متنازعہ ہے۔ جس کے پاس مینڈیٹ ہے یا جسے عوامی حمایت حاصل ہے وہ پابند سلاسل ہے۔ اس صورتحال کو دیکھیں تو نواز شریف کے لیے یہ آسان نہیں ہو گا۔سینیئر صحافی سلمان غنی نے کہا کہ تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف بلوچ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
اسی لیے مولانا فضل الرحمن ، محمود اچکزئی اور چوہدری شجاعت بھی نواز شریف کو بلوچستان کے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں کردار ادا کرنے کے لیے کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ان کے ذاتی علم میں ہے کہ نواز شریف اختر مینگل سے رابطے میں ہیں۔سینیئر صحافی خالد فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ درست نہیں ہے کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی ہر بات پر آمین کہتے ہیں اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے بہت زیادہ تابع فرماں ہوتے تو اس وقت خود ایوان وزیراعظم سے باہر نہ بیٹھے ہوتے۔
ان کے مطابق بلوچستان میں وہی کردار ادا کر سکے گا جس کو اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل ہوگا۔ ان کے خیال میں نواز شریف اور زرداری جیسے لوگوں پر اگر اسٹیبلشمنٹ اعتماد کرے تو وہ بلوچستان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ماہرین کا پاکستان سے بلوچ کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ماضی میں کئی سیاسی لیڈر بلوچوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد آخر میں شرمندگی اٹھا چکے ہیں۔ اب اس امر کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ نواز شریف جو اقدامات تجویز کریں گے انہیں قبول کر لیا جائے گا۔
ادارت کشور مصطفیٰ