کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اپریل2025ء)وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ کینالز کا ایشو پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ہی نہیں، صوبہ سندھ کے لئے بلکہ پنجاب کے کسانوں کے لئے بھی بہت اہم ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی وفاقی حکومت میں شامل نہیں ہے البتہ یہ ہمارے سپورٹ کی وجہ سے قائم ضرور ہے۔کوئی ایسا وقت آجاتا ہے اور ہمیں یہ محسوس ہو کہ وفاقی یا پنجاب حکومت اپنے کینالز والے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے تو ہمارے لئے اس وفاقی حکومت کی کوئی اہمیت رہ نہیں جاتی۔
وفاقی حکومت کینالز کے معاملے پر سی سی آئی کا فوری اجلاس طلب کرے جو وہ گذشتہ ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود نہیں کررہی ہے۔ اگر خدانخواستہ سی سی آئی میں سندھ کے موقف کو رد کیا جاتا ہے تو اس کی اپیل کا فیصلہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کیا جاسکتا ہے اور پیپلز پارٹی اس حیثیت میں ہے کہ ہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اس کو مسترد کروا سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
سینیٹ کی سینیٹر تاج حیدر کے انتقال کے بعد خالی نشست پر پیپلز پارٹی کے سنئیر کارکن سید وقار مہدی کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں اور ہماری یہ خواہش ہے کہ یہ بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہوجائیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز صوبائی الیکشن کمشنر کے دفتر میں پیپلز پارٹی کے سنئیر رہنما سینیٹر تاج حیدر کے انتقال کے باعث سینیٹ کی سندھ سے خالی ہونے والی نشست پر سید وقار مہدی اور ان کے کورننگ امیدوار محمد آصف خان کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
سعید غنی نے کہا کہ آج ہم نے پاکستان پیپلز پارٹی کے انتہائی سنئیر کارکن سینیٹر تاج حیدر مرحوم کے انتقال کے باعث خالی ہونے والی سینیٹ کی خالی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ہماری جانب سے دو ارکان نے کاغذات نامزدگی جمع کروائیں ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ جب تک ہم۔نے یہ کاغذات نامزدگی جمع کرائے اس وقت تک الیکشن کمیشن میں صرف ہمارے دو امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع ہوئے ہیں شام ساڑھے 4 بجے تک کا وقت ہے دیکھتے ہیں کہ کوئی اور جماعت اپنے امیدواروں کے کاغذات جمع کرواتی ہے یا نہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوں اور اگر کسی اور جماعت کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے گی جو ان کا حق ہے تو ہم ان سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے اور اس انتخاب میں ہمارے امیدوار کو بلا مقابلہ کامیاب کروائے۔ سعید غنی نے کہا کہ اس وقت سندھ اسمبلی میں جہاں 6 مئی کو یہ انتخاب ہونا ہے وہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت ہے اور اگر الیکشن ہوا تو ہم واضح طور پر کامیاب ہوجائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ کینالز کا اشیو پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ہی نہیں، صوبہ سندھ کے لئے بلکہ پنجاب کے کسانوں کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ ہم بار بار یہ کہتے ہیں کہ ان کینالز کے بننے سے نہ صرف صوبہ سندھ میں پانی کی شدید قلت ہوجائے گی اور یہاں کاشت ہونے والی زمینیں بہت متاثر ہوں گی، بلکہ پنجاب میں اس وقت جو زمینیں کاشت ہورہی ہیں وہ بھی اس سے متاثر ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت ان کینالز کو لے کر یہ دعوے کررہی ہیں کہ ہم پنجاب کا پانی لے کر ان کینالز کو استعمال کریں گے، جبکہ اس وقت سندھ کی طرح پنجاب کے کسانوں کو بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس پانی کو نکال کر چولستان کی زمینوں کو سیراب کرسکیں۔ سعید غنی نے کہا کہ یہ ایک نہایت سنجیدہ اشیو ہے کیونکہ اس وقت پورے پاکستان میں پانی کہ شدید قلت کا سامنا ہے۔
موجودہ حالات میں جو زمینیں آباد ہیں ان کی فصلوں کے لالے پڑیں ہیں تو کس طرح نہیں زمینوں کو آباد کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور سوال پر سعید غنی نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ ایک نہایت نازک معاملہ ہے، پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت سندھ حکومت میں ہے، ہم سندھ کے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں اس لئے ہماری یہ ذمہ داری اور فرض بنتا ہے کہ ہم سندھ ہے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔
پاکستان پیپلز پارٹی وفاقی حکومت میں شامل نہیں ہے۔ وفاقی حکومت ہمارے سپورٹ کی وجہ سے قائم ضرور ہے اور کوئی ایسا وقت آجاتا ہے اور ہمیں یہ محسوس ہو کہ وفاقی یا پنجاب حکومت اپنے کینالز والے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے تو ہمارے لئے اس وفاقی حکومت کی کوئی اہمیت رہ نہیں جاتی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلی سندھ واضح طور پر یہ کہہ چکیں ہیں کہ ایسا وقت آیا اور ہمیں یہ محسوس ہوا کہ وہ کینالز کے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو ہمارے لئے اس طرح کی وفاقی حکومت کو سپورٹ کرنا ناممکن ہوگا۔
پیپلز پارٹی صرف ان معاملے کو لے کر جلسہ ہی نہیں کررہی ہے بلکہ اس منصوبے کو روکنے کے لئے ہم حکومت میں ہیں ہمارے پاس وہ فورم موجود ہیں جہاں ہم قانونی اور آئینی طور پر ان منصوبوں کو روک سکتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم نے سی سی آئی میں اپنے اعتراضات بھیجیں ہیں اور وفاقی حکومت اس بات کی پابند ہے کہ 3 ماہ بعد سی سی آئی کا اجلاس بلائے لیکن افسوس وفاقی حکومت گذشتہ ایک سے سوا سال سے سی سی آئی کا اجلاس نہیں بلا رہی ہے۔
اگر وفاقی یا پنجاب حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ان کا کینالز کو لے کر کیس مضبوط ہے تو ان کو سی سی آئی کا اجلاس فوری طور پر بلانا چاہیے اور ہمارے اعتراضات کو سننا چاہیے اور اس کی روشنی میں سی سی آئی کا فیصلہ آنا چاہیے لیکن ہم اس لئے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے۔اس لئے کہ اگر سی سی آئی میں اگر خدانخواستہ یہ فیصلہ اکثریت سے کردیتے ہیں اور سندھ کے اعتراضات کو رد کردیتے ہیں تو سی سی آئی کے فیصلے خلاف جو اپیل ہوتی ہے وہ پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں ہوتی ہے اور پیپلز پارٹی کی مدد کے بغیر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کوئی چیز منظور نہیں ہوسکتی۔
اس لئے پیپلز پارٹی اس حیثیت میں ہے کہ ہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اس کو مسترد کروا سکتے ہیں۔ اس لئے ہم سو فیصد یقین کے ساتھ بات کرتے ہیں کہ ہم ان کینالز کو نہیں بننے دیں گے۔ سعید غنی نے کہا کہ اب جو مخالفین ہم پر اعتراضات اٹھاتے ہیں ان کے پاس یہ فورمز نہیں ہیں۔ ان کے پاس سی سی آئی یا پارلیمنٹ کا مشترکہ فورم نہیں ہے اس لئے ہم وہ ہم۔
پر اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ کینالز کو لے کر مخالفین کی جانب سے جو تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ پیپلز پارٹی سندھ میں کینالز کو لے کر ختم ہوگئی ہے یہ تاثر عمرکوٹ کے ضمنی انتخابات نے ثابت کردیا کہ تمام جماعتیں اکٹھی ہوکر بھی اور کینالز کے اشیوز پر اتحاد بنا کر بھی کھڑی ہوتی ہیں تب بھی پیپلز پارٹی کا وہ مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ صوبہ سندھ کے لوگ آج بھی پیپلز پارٹی پر اعتماد کرتے ہیں،پیپلز پارٹی کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں اور انشااللہ تعالی اسی اعتماد کے ذریعے ہم ان کے حقوق کا تحفظ کرتے رہیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ گیس کے اشیو پر بھی پیپلز پارٹی بار بار بات کرچکی ہے، وزیر اعلی سندھ کے خطوط موجود ہیں، اسمبلی کے فلور پر اس حوالے سے قراردادیں موجود ہیں، اس پر اسمبلی میں تقاریر اور پریس کانفرنسیں موجود ہیں اور وفاقی حکومت کے ساتھ ہونے والے اجلاسوں میں بھی یہ معاملہ اٹھایا جاتا رہا ہے۔
اگر کسی کو یہ تمام چیزیں نظر نہیں آتی ہیں تو بے حسی تو وہاں پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصدق ملک اگر گیس کے معاملہ پر کہتے ہیں تو بھلے کہتے رہیں لیکن ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر پانی کی تقسیم صوبوں کے درمیان ہونی ہے تو اس کا فورم وفاقی کابینہ نہیں ہے اور نہ ہی صوبائی کابینہ ہے بلکہ آئینی اور قانونی طور پر ایک ادارہ ہے جو سی سی آئی ہے۔
اگر وہ اتنے سنجیدہ ہیں اور ہماری بات کو سنجیدہ نہیں لیتے تو فوری طور پر کونسل آف کامن انٹرسٹ(سی سی آئی)کا اجلاس بلائیں۔ ہم تو بار بار کہتے آرہے ہیں کہ اجلاس بلائیں اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں کتنا دم ہے کہ وہ کینالز بنا سکیں اس موقع پر سینیٹ کے انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کروانے والے پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری و سابق سینیٹر سید وقار مہدی نے کہا کہ میں اپنی قیادت بالخصوص چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، صدر آصف علی زرداری اور ادی فریال تالپور کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک بار پھر مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے ہمارے دیرینہ ساتھی مرحوم سینیٹر تاج حیدر کی وفات کے بعد ان کی سینیٹ میں خالی ہونے والی نشست کے لئے ٹکٹ دیا ہے، اس سے قبل بھی پارٹی کی قیادت کے اعتماد پر میں سینیٹر بنا اور بھرپور کوشش کی کہ سینیٹ میں سندھ کے لئے آواز اٹھائی۔
وقار مہدی نے کہا کہ پہلے بھی میں نے سینیٹ میں سندھ کے مسائل پر آواز بلند کی تھی اور اب بھی کرتا رہوں گا۔بالخصوص شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید محترمہ بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے منشور اور وژن کے تحت سندھ کے مزدوروں، کسانوں اور پسے ہوئے طبقات کے حوالے سے پارٹی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر وہاں آواز بلند کرتا رہوں گا۔