اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 مئی2025ء)جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے گلے شکووں کے باوجود وطن کے دفاع میں پیش پیش ہیں، دشمن کے خلاف پوری قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، پاکستانی فوج نے بہترین دفاع کیا، بھارت ہمارے خلاف اسرائیلی اسلحہ استعمال کر رہا ہے، سفارتی رابطوں سے مطمئن نہیں ہوں، سفارتی اقدامات سے متعلق مطمئن نہیں، سفارتی مشنز بیرون ملک بھیجنے چاہئیں،بھارت نے مساجد، مدارس اور سویلین علاقوں پہر راکٹ داغے، ہمارے بھائی، بہنیں شہید ہوئے، بری ہو یا فضائی، پاکستانی فوج نے بہترین دفاع کیا، مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،جے یو آئی نے پورے ملک میں یوم دفاع وطن منانے کا اعلان کیا ہے، پشاور میں 11 مئی کو ملین مارچ اور 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہو گا۔
(جاری ہے)
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان بھارتی جارحیت کے مقابلے میں محاذ پر ہے، ہندوستان نے مساجد پر مدارس پر اور سویلین علاقوں پر راکٹ داغے، ہمارے بھائی شہید ہوئے بہنیں شہید ہوئیں اس میں لیکن پاکستان کی فوج نے چاہے بری افواج ہوں چاہے فضائی افواج ہوں انہوں نے جس بہادری کے ساتھ اور جس خوبصورت حکمتِ عملی کے ساتھ دفاع کیا ہے میں ان حالات میں انہیں خراج تحسین پیش کروں گا۔
انہوںنے کہاکہ جمعیت علماء اسلام نے پورے ملک میں یوم دفاع وطن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام آئمہ و خطباء سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی جارحیت کی بھرپور الفاظ میں مذمت کریں، جو بھی پاکستان کا موقف ہے پاکستان کے موقف کو اس وقت اجاگر کریں اور قوم کو متحد ہونے کا درس دیں اس حوالے سے ان شاء اللہ 11 مئی کو پشاور میں ملین مارچ ہوگا بہت بڑا، جہاں پاکستان کے عوام بھرپور طور پر اپنی یکجہتی کا اظہار کریں گے اور پاکستانی موقف کو اجاگر کریں گے اور پھر 15 مئی کو کوئٹہ میں انشا ء اللہ ملین مارچ ہوگا اور پورے بلوچستان کا عوام اس میں اپنی یکجہتی کا اظہار کرے گا۔
انہوںنے کہاکہ حکومت نے ابھی حال ہی میں کہا ہے کہ نوجوان نام لکھوائیں شہری دفاع کے لیے، الحمدللہ ہمارے پاس انصار الاسلام کا شعبہ موجود ہے اور ہم نے اپنے انصار الاسلام کے شعبے کو شہری دفاع کی ذمہ داریوں کی ہدایات دے دی ہیں، جہاں جہاں بھی خدا نہ کرے خدا نہ کرے کوئی نقصان ہوتا ہے کوئی پاکستانی شہری متاثر ہوتا ہے تو اس کی مدد کے لیے پہنچنا ان کو طبی امداد مہیا کرنا ان کو ریلیف دینا جو بھی ممکن صورت ہوئے ایک عام شہری کے ہاتھوں انشاء اللہ ہم وہ کردار ادا کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ ہندوستان نے ہمارے مساجد کو نشانہ بنایا ہے مدارس کو نشانہ بنایا ہے اور میں پورے ایوان کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آج اگر پاکستان کی دفاع میں صفحہ اول پر پہلے مورچے میں اگر کوئی لڑ رہا ہے یا لڑنے کا عزم رکھتا ہے تو وہ آپ کے دینی مدرسے کا نوجوان ہے جو بین الاقوامی دباؤ میں بھی رہتا ہے حکومت پاکستان کے دباؤ میں بھی رہتا ہے میں یہ تجویز کروں گا کہ اس تصادم کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے اور مدارس کے حوالے سے جو کمیٹمنٹس آپ نے کی ہے جو قانون سازی آپ نے کی ہے میری گفتگو کو محض سیاسی بات نہ سمجھی جائے بلکہ حقیقی معنی میں یہ ایک سنجیدہ سوال ہے جو آپ کے لئے بھی ہے آپ نے بھی اس کو طے کرنا ہے گورنمنٹ نے بھی اس کو طے کرنا ہے اور دنیا کو دکھانا ہے کہ ہم ایک ہیں۔
انہوںنے کہاکہ اگر میں ملکی مفاد میں اور ملکی دفاع میں آپ کے ساتھ ایک صف میں کھڑا ہوں تو پھر آپ کو بھی میرے ساتھ ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا، تعاون وہ دو طرفہ معاملات کا نام ہے ،یہ ایک طرفہ معاملات کا نام نہیں ہے، ہم اپنے تعاون اور شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں پتہ نہیں آپ دینی مدارس کو کب اپنے پاکستانی سمجھیں گے اور کب پاکستانی کے طور پر آپ ان کے ساتھ روش اختیار کریں گے۔
انہوںنے کہاکہ میری گفتگو کو تنقید نہ سمجھا جائے، میری گفتگو کو تجویز سمجھا جائے، میں بڑی نیک نیتی کے ساتھ پورے ایوان کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک ہی قومی بیانیہ ہونا چاہیئے ان حالات میں، بھانک بھانک کی بولیاں، پھر آج سوشل میڈیا ہے ہر شخص آزاد ہے جو چاہے کہے یہ اس کی میں حوصلہ شکنی کروں گا اور یہ ضرور کہوں گا کہ یہ جنگ ہے جنگ میں پھول نہیں بکھیرے جاتے، جنگ میں آگ برستی ہے اور یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہماری اس جنگ کی سطح کیا ہے، کیا صرف ہم ایک دوسرے کو دھمکیوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں ہم چھوٹی موٹی کارروائی کر کے اور بس یہاں تک رکھنا چاہتے ہیں اس سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں کیا ہم کشمیر کی سرزمین آزاد کرا سکیں گے اس میں ہم کچھ پیش رفت اس میں کر سکیں گے یہ ساری حکمت عملی حکومت کے ایوانوں میں جہاں بنتی ہے یہ وہی بتا سکیں گے اور میں حکومت سے یا اسٹیبلیشمنٹ سے یہ مطالبہ بھی نہیں کر رہا کہ آپ کی جنگی حکمت عملی کیا ہے کیونکہ جنگ لڑنے والا خود اپنی جنگی حکمت عملی اس وقت کیلئے خود بنایا کرتا ہے اور اس میں اگر اس کو افشاں کیا جائے اس کو پبلک کیا جائے تو اس کے نقصانات بھی ہوا کرتے ہیں لیکن سیاسی لیول پر ہم کہاں کڑے ہیں ہمیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
انہوںنے کہاکہ ہماری اس وقت تک کوئی سفارتی مشن باہر نہیں ہے ہم صرف ٹیلی فونوں پر باتیں کر رہے ہیں، ان حالات میں ہمارے سفارتی مشن باہر ہونے چاہیے تھیں ملکوں کا دورہ ان کو کرنا چاہیے تھا، ہمیں چائنہ کو بڑی مضبوطی کے ساتھ انگیج کرنا چاہیے تھا، ہمیں سعودی عرب کو انگیج کرنا چاہیے تھا، ہمیں ایران کو انگیج کرنا چاہیے تھا، ہمیں متحدہ امارات کو انگیج کرنا چاہیے تھا، ہمیں افغانستان کو بھی انگیج کرنا چاہیے تھا، ہم نے اپنے پڑوسی ممالک میں بھی آج تک وہ سفارتی سرگرمیاں نہیں دکھائی ہیں جو ان دنوں کا حق ہے تو اس حوالے سے کیا ہمیں بتایا جا سکے گا کہ پاکستان کی اس وقت تک سفارتی جو کوششیں ہیں وہ کیا ہے کس حد تک ہیں اور پاکستان کی قوم کو وہ اس حوالے سے کس حد تک مطمئن کر سکتے ہیں، کم از کم میں بحیثیت رکن پارلیمان کے اس وقت تک میں سفارتی سرگرمیوں کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔
انہوںنے کہاکہ اس بات کو بھی واشگاف کیا جائے کہ جہاں فلسطین میں اسرائیل جارحیت کر رہا ہے ،عام شہریوں کو قتل کر رہا ہے، ساٹھ ہزار تک فلسطینیوں کو وہ قتل کر چکا ہے، غزہ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے، لوگ بے گھر ہیں کیمپوں میں جاتے ہیں تو وہاں پر بھی بمباری اور شاید وزیر دفاع ہمیں بہتر بتا سکیں گے کہ کیا اسرائیلی دیا ہوا اسلحہ آج بھارت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کررہا، اس حوالے سے یہود و ہنود کا اتحاد بھارت اسرائیل اتحاد ہمارے نشانے پر ہونا چاہیے اور ہمارے قومی بیانیے کا حصہ ہونا چاہیے کہ ہم دونوں کے بارے میں ایک زبان استعمال کریں ایک گفتگو کریں جب اس پر تفاوت آتا ہے تو پھر عام آدمی کے اندر سوالات پیدا ہوتی ہیں۔
انہوںنے کہاکہ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے دفاعی اداروں کو مضبوط کریں ان کے پشت پر کھڑے ہوں ہر چند کے ہمارے ملک میں ہمارے آپس میں اختلافات ہیں اٴْدھر حکومت بیٹھی ہے تو ادھر حزب اختلاف ہے معنی یہ کہ حکومت کی سوچ اور ہوتی ہے حزب اختلاف کی سوچ اور ہوتی ہے لیکن آج ہم ملک کیلئے ایک ہیں ملک کی وحدت کیلئے ہم ایک صف ہیں، ہمیں اسٹیبلیشمنٹ سے گلے ہیں شکوے ہیں وہ اپنی جگہ پر رہیں گے لیکن جب وطن عزیز کا سوال آئے گا تو وطن عزیز کے معاملے پر وہ ہمیں اپنے سے آگے پائیں گے پیچھے نہیں ہونگے۔
انہوںنے کہاکہ میں یہی سوچتا ہوں کہ سوشل میڈیا ہو ہمارے انفرادی طور پر بہت سے لوگ اس قسم کے کچھ پوسٹیں لگا رہے ہیں جس سے کہ وہ جنگ کو مذاق سمجھتے ہیں فوج پر بڑا ناپسندیدہ قسم کا تبصرہ ان کا ہوتا ہے ان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور اس پروپیگنڈے پر حکومت کو قد غن لگانے کیلئے اقدامات کرنے چاہیے، سو ملک کے اندر بھی امن و آمان کا مسئلہ اپنی جگہ پر موجود ہے بلوچستان میں بھی کیپی میں بھی اس کے لئے ہم کیا سفارتی کوشش کر رہے ہیں، کونسا ایسے حکمتی عملی ہم نے بنائی ہے کہ ہم ملک کے اندر کم از کم فوج کو جنگ سے نکالیں اور محاذ کی طرف ان کو متوجہ کریں تاکہ بھارت کی جارحیت کے مقابلے میں ملک کا دفاع ہو۔
انہوںنے کہاکہ ہم نے کیا جواب دیئے ہیں ان کو آج تک ان کی جارحیت کے ابھی تک قوم پر کوئی زیادہ واضح نہیں ہے، ہم نے ان کی مقابلے میں کیا نقصان کیا ہے اب تک قوم پر یہ باتیں واضح نہیں ہیں، تو ہمارے وزیر دفاع ماشاء اللہ اس وقت تشریف فرمائے کہ وہ پارٹی کے ہمارے اکابرین بھی موجود ہیں ،حکومت کے لوگ بھی آج موجود ہیں کسی کو تک اپنا دکھ کچھ سنانے کا مجھے موقع مل گیا تو اس ایوان کو ذرا سنجیدہ لینا چاہیے آج کے وقت میں، بھرپور ہمارے یہاں پر نمائندگی ہونی چاہیے، وزراء کی یہاں موجودگی ضروری ہوتی ہے، حکومت جو بات کرتی ہے آپ سے مخاطب ہوتی ہے تاہم اس کا خطاب آپ کے واسطے سے ایوان کی طرف ہوتی ہے ،حکومت کے طرف ہوتی ہے اور اگر حکومت کو کوئی سننے والے ہی نہ ہو کوئی ذمہ دار اس کا ریسپانس کرنے والا نہ ہو تو پھر ظاہر ہے شکایتیں پیدا ہوتی ہیں، ہمیں اس وقت ان تمام کمزوریوں سے بچنا چاہیے اور ایک طاقتور پاکستانی پارلیمنٹ کا کردار ہمیں ادا کرنا چاہیے میں بہت شکر گزار ہوں۔