Live Updates

کیا جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانا عجلت کا فیصلہ ہے؟

DW ڈی ڈبلیو بدھ 21 مئی 2025 19:40

کیا جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانا عجلت کا فیصلہ ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مئی 2025ء) دفاعی، سماجی اور صحافتی حلقوں کا ماننا ہے کہ جس جنگ کے نتیجے میں یہ اعزاز دیا گیا ہے، اسے ابھی ختم نہیں کہا جا سکتا اور پاکستان کو ابھی بہت سے محاذوں پرجنگ کا سامنا ہے، جن میں کشمیر کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا معاملہ اور ملک بھر میں دہشت گردی جیسے مسائل شامل ہیں۔

پاکستانی حکومت نے حال ہی میں ملک کے آرمی چیف سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی ہے، جس کے بعد وہ ایوب خان کے بعد دوسرے فیلڈ مارشل بن گئے ہیں۔ اس حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ فیلڈ مارشل بننے کے بعد جنرل عاصم منیر اب فائیو سٹار جنرل بن گئے ہیں، جو انہیں ملک کا سینئر ترین فوجی افسر بنا دیتا ہے اور انہیں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ساحر شمشاد سے بھی اعلیٰ رینک پر فائز کر دیتا ہے، جو کہ فور سٹار جنرل ہیں۔

(جاری ہے)

حکومت کے آرمی چیف کو فیلڈ ماشل بنانے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟

حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ کے بعد ملک میں جشن کا سماں دیکھا گیا۔ پاکستانی دعویٰ تھا کہ اس نے بھارت کے کئی طیارے مار گرائے اور بھارت کے اندر کئی اہم اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسی تناظر میں پاکستان میں ''یومِ تشکر‘‘ بھی منایا گیا تھا۔

تاہم بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بھارت کے ساتھ یہ جھڑپیں گو کہ جنگ کے زمرے میں لائی جا سکتی ہیں مگر جنرل منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینا اس کامیابی کے تناسب میں نہیں آتا۔

پاکستان کی معروف مصنفہ اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں، ''میرے خیال میں یہ اعزاز دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بلاشبہ ایک جنگ تھی لیکن فیصلہ کن فتح نہیں تھی۔

اس فیصلے سے نہ آرمی چیف کی اور نہ ہی فوج کی ساکھ میں اضافہ ہو گا۔ آرمی چیف کو فیلڈ مارشل بنانے کا فیصلہ اس قومی ہم آہنگی کو زائل کر گیا ہے جو جنگ کے بعد پیدا ہوئی تھی۔‘‘

ڈاکٹر عائشہ کا مزید کہنا ہے کہ اس طرح کے اعزازات صرف واضح اور فیصلہ کن فتوحات پر دیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے بھی جنرل مانک شا کو فیلڈ مارشل کا درجہ اس وقت دیا جب 1971 کی جنگ میں پاکستانی فوج نے ان کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔

ان کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ مسلم لیگ ن کی حکمت عملی کا حصہ ہے اور موجودہ حکومت فوجی قیادت کے ساتھ تعلق مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

بعض دفاعی تجزیہ کار گو کہ حکومتی فیصلے کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ بھی عائشہ صدیقہ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل عاصم کو فیلڈ مارشل کا اعزاز دینا حکومت کا فیصلہ ہے اور یہ ان کے لیے ایک اعزاز ہے۔

تاہم جنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ''ہم ابھی بھی بھارت اور دیگر کئی محاذوں پر حالتِ جنگ میں ہیں۔ مسئلہ کشمیر ابھی بھی موجود ہے، بھارت کے ساتھ پانی کا تنازعہ بھی حل نہیں ہوا اور آج بھی ایک دہشت گرد حملہ دیکھنے میں آیا۔ لیکن اس اقدام کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ بعض اوقات جب کسی کو ایسا اعزاز دیا جاتا ہے تو وہ ملک کے مسائل کو حل کرنے پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔

‘‘

فیلڈ مارشل بننے سے کیا آرمی چیف کبھی ریٹائر نہیں ہوں گے؟

فیلڈ مارشل کے رینک اور اسٹیٹس کی وضاحت کرتے ہوئے جنرل نعیم خالد لودھی نے بتایا کہ حکومت نے آرمی چیف کو محض کوئی معمولی عہدہ نہیں دیا بلکہ نوٹیفکیشن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ انہیں ترقی دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا: ''یہ یقیناً آرمی چیف کے لیے ایک نیا دور ہوگا، چاہے وہ تین سال کا ہو یا پانچ سال کا، یہ ابھی واضح نہیں کیونکہ 26ویں آئینی ترمیم آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کا ذکر کرتی ہے، لیکن فیلڈ مارشل کے لیے کچھ نہیں کہا گیا۔

میرے خیال میں اس عہدے کو قانونی طور پر جگہ دینے کے لیے مزید قانون سازی کی جائے گی۔‘‘

فیلڈ مارشل بننے کے بعد آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے نعیم لودھی نے کہا، ''جب آرمی چیف ریٹائر ہوں گے تو وہ دفتر چھوڑ دیں گے لیکن فیلڈ مارشل کے عہدے سے کبھی ریٹائر نہیں ہوں گے۔‘‘ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بطور فیلڈ مارشل فیصلے کریں گے۔

یہ ایک اعزازی عہدہ ہوگا، جس کے ساتھ کچھ مراعات اور عملہ ضرور ہوگا، لیکن وہ عملی فرائض سرانجام نہیں دیں گے۔

جنرل لودھی نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ کیونکہ آرمی چیف اب فائیو سٹار جنرل ہیں اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف سے سینیئر ہو گئے ہیں تو ایک فور سٹار وائس چیف آرمی اسٹاف کی بھی شاید گنجائش نکلے گی جو موجودہ لیفٹیننٹ جنرلز میں سے کسی کو بنایا جا سکتا ہے اور وہ پھر مستقبل میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی میٹنگز میں جایا کریں گے۔

حکومت کے پاس زیادہ بہتر آپشن کیا تھا؟

جبکہ کچھ حلقے اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں اور کچھ نے اس سے امیدیں وابستہ کی ہیں، کچھ کا ماننا ہے کہ کسی کو فیلڈ مارشل بنانا خود اتنا متنازعہ نہیں جتنا کہ اس فیصلے کا وقت متنازعہ ہے۔

سینئر صحافی عمر چیمہ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ قبل از وقت ہے کیونکہ ملک کئی محاذوں پر برسرِ پیکار ہے۔

''حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ انتظار کرتی، جب تک افواج دہشت گردی اور بھارت سے کشیدگی کے محاذوں پر مزید کامیابیاں حاصل نہ کر لیتیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر ملک جشن منا رہا تھا مگر اب مختلف حلقوں میں رائے کا اختلاف واضح ہو گیا ہے اور اس فیصلے نے معاشرے میں دوبارہ تنازع کو جنم دیا ہے۔ ''اس سے معاشرے میں اچھا تاثر نہیں گیا، ہم ایک بار پھر اتحاد سے ہٹ کر تقسیم اور پولرائزیشن کی طرف جا رہے ہیں۔

‘‘

عمر چیمہ نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت واقعی آرمی چیف کو فیلڈ مارشل بنانے کے فیصلے پر قائل تھی، تو ایئر چیف کو بھی اُن کی خدمات کے اعتراف میں ''مارشل آف دی ایئر فورس‘‘ کا اعزازی رینک دیا جانا چاہیے تھا، صرف توسیع دینا کافی نہیں۔

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات