Live Updates

ٴایوان قائداعظم فورم کی نشست بعنوان ’’ سندھ طاس معاہدہ: ماضی ، حال ، مستقبل‘‘ کا انعقاد

جمعہ 23 مئی 2025 23:07

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 مئی2025ء) سندھ طاس معاہدہ کی معطلی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے‘ اس معاہدہ میں ترمیم دونوں ممالک کی باہمی رضامندی سے ہی ہو سکتی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کی معطلی کا بھارتی اقدام اعلانِ جنگ کے مترادف ہے ۔ پانی کے معاہدہ سے نکلنا آسان نہیں اس کے خوفناک نتائج ہوتے ہیں۔ پانی زندگی ہے اور اسے ضائع ہونے سے بچانے کیلئے عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

کالاباغ ڈیم کا قیام وقت کی ضرورت ہے اس پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے ایوان قائداعظم فورم کی نشست بعنوان ’’ سندھ طاس معاہدہ: ماضی ، حال ، مستقبل‘‘ کے دوران کیا۔ اس نشست کی صدارت سینئر وائس چیئرمین ادارہٴ نظریہٴ پاکستان میاں فاروق الطاف نے کی۔

(جاری ہے)

نظامت کے فرائض بیگم مہناز رفیع نے انجام دیئے۔ میاں فاروق الطاف نے صدارتی خطاب میں کہا پانی ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔

دنیا کے کئی دریا ایسے ہیں جو متعدد ممالک میں سے گزرتے ہیں۔ دریائے میکانگ تین ہزار کلومیٹر طویل اور چھ ممالک سے گزرتا ہے‘ دریائے نیل چھ ہزار کلومیٹر سے زائد طویل اور 11 ممالک سے گزرتا ہے‘ دریا ڈینیوب چھ ہزار کلومیٹر طویل اور دس ممالک سے گزرتا ہے ۔ ان تمام ممالک کے درمیان معاہدات موجود ہیں اور کوئی ان کو توڑنے کی جرأت نہیں کرتا ۔جو کوٹہ مقرر ہے و ہی ملتا ہے اور کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔

انہوں نے کہا جب کالا باغ ڈیم کی مخالفت شروع ہوئی تو سب سے پہلے فرنٹیئر صوبہ کی عوامی نیشنل پارٹی کے عبدالولی خان نے اس کی مخالفت کی۔ 1992ء میں‘ میں ایک سرکاری وفد کے ہمراہ چین گیا تو نثارمحمد خان بھی ہمراہ تھے ‘ ان سے میں نے کہا کہ آپ کالا باغ ڈیم کی کیوں مخالفت کرتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے فرنٹیئر صوبہ کا کوئی نقصان نہیں ہو گا‘ آپ دیکھیں کہ کئی گھنٹے مسلسل بارش ہو تو پانی اسی جگہ (کالا باغ) جمع ہو گا ، اب پانی اسی جگہ جمع ہو گا جہاں گھڑا ہو گا اور وہیں ڈیم بھی بنایا جائے گا۔

انہوں نے مجھے جواب دیا کہ ہمیں تو اتنی ٹیکنیکل باتوں کا نہیں پتہ‘ ولی خان جو بیان دیتے ہیں ہماری کوشش ہوتی ہے ہم ان سے بڑھ کر بیان دیں۔ میں نے کہا اس پر بحث ہونی چاہیے تاکہ حقائق سب کے سامنے آئیں۔ میں نے وطن واپس ا ٓکر سینئر سیاستدان ملک قاسم سے کہا آپ ولی خان سے بات کریں اور انہیں کہیں آپ کے صوبہ کو رائلٹی بھی ملے گی کالا باغ ڈیم بننے دیں کیونکہ اس ڈیم کی تعمیر ملک کیلئے بہت ضروری ہے۔

انہوں نے ولی خان سے بات کی لیکن کوئی مثبت ردعمل نہیں آیا۔ میاں فاروق الطاف نے کہا ہمیں پاکستان کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی نے کہا 1945ء میں اقوام متحدہ کے قیام کے بعداس کے چارٹر کے تحت کسی ملک کو دوسرے ملک پربزور طاقت قبضہ کرنے سے منع کر دیا گیا اور ایسی جنگ غیر قانونی قرار پائی ۔

1960ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین آبی تنازعات کے حل کیلئے سندھ طاس معاہدہ ہوا جس کی ساخت انجینئرنگ ہے سیاسی نہیں۔ اس معاہدہ کے تحت بھارت کو دریاؤں پر ڈیم بنانے کی نہ اجازت ہے اور نہ منع کیا گیا ہے۔ 2016ء میں نریندر مودی نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد دو بیان دیے تھے ایک یہ کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر دیا جائے گا دوسرا سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا جائے گا ۔

یہ ایک دشمنی پر مبنی بیان اور ایکٹ آف وار کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی ملک کا پانی روکنا ایکٹ آف وار ہے۔ مودی نے ایک ٹاسک فورس بنائی جس کو یہ کام سونپا کہ وہ اس معاہدہ سے جان چھڑانے کے لیے تجاویز دیں۔اب پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر بھارت نے معاہدہ کو معطل کر دیا حالانکہ وہ بڑی دیر سے ایسی کوششوں میں مصروف تھا۔ انہوں نے کہا بھارت کا یہ اقدام اعلان جنگ کے مترادف ہے۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات اس وقت تک نارمل نہیں ہوں گے جب تک بھارت اس معاہدہ کی بحالی کا اعلان نہیں کرتا ۔سندھ طاس معاہدہ کے تحت تین دریائوں کا پانی بھارت استعمال کرتا ہے جبکہ تین دریاؤں کا پانی پاکستان استعمال کرتا ہے۔ ان دریاؤں میں سے ایک دریا (سندھ )چین کے علاقہ تبت سے آتا ہے لہٰذا اگر معاہدہ کو ری اوپن کر کے مذاکرات کرنا ہے تو کیا چائنہ کو پارٹی بنانا ہی یہ ایک اہم سوال ہے۔

انہوں نے کہا بین الاقوامی طور پر جن ممالک سے دریا گزرتے ہیں وہ سب آپسی معاہدہ کے پابند ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی بھی دریا کا پانی مکمل طور پر بند نہیں کیا جا سکتا کم از کم پانی کا اتنا ہونا ضروری ہے کہ دریا کا بہاؤ جاری رہ سکے۔پروفیسر عابد شیروانی نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ سے قبل بھی یہ دریا صدیوں سے رواں دواں ہی۔

جب تقسیم ہند ہوئی تو بہت سے مسائل نے جنم جنم لیا ۔اپریل 1948 ء میں پہلا آبی تنازع اس وقت شروع ہوا جب بھارت نے فیروزپور ہیڈ ورکس کو بند کر دیا تاہم باہمی مذاکرات سے مسئلہ حل ہو گیا۔ آبی تنازعات کے حل کیلئے ستمبر 1960 ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین سندھ طاس معاہدہ ہوا اور ورلڈ بینک اس میں ضامن بنا۔ اس معاہدہ کے تحت مشرقی دریا راوی ،ستلج اور بیاس کا پانی بھارت استعمال کرے گا جبکہ مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کا پانی پاکستان استعمال کرے گا۔

اس معاہدہ کے بعد پاکستان نے پانی کے سٹوریج اور بجلی کی پیداوار کے لیے منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم بنائے جبکہ نہری آبپاشی کا بھی ایک بہترین نظام بنایا جسے دنیا کا بہترین نظام مانا جاتا ہے۔ پاکستان کی زرعی معیشت کا انحصار پانی پر ہی ہے‘ سندھ طاس معاہدہ کی معطلی کے بعد ہمیں اس کو کاؤنٹر کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا پانی زندگی ہے اور اس کے بغیر کوئی گزارا نہیں۔

ہمیں تمام تعصبات اور اختلافات کو بھلا کر ایک قوم بننا ہوگا۔ آبی ماہر انجینئر سلیمان خان نے کہا کہ فروری 1948 ء میں میانوالی ہائیڈرو پروجیکٹ ( کالا باغ ڈیم ) اس کی منظوری دی گئی لیکن یہ پروجیکٹ آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ ہمارے دریاؤں میں پانی کی سطح مسلسل کم ہو رہی ہے۔ دریائے جہلم میں8.8فیصد دریائے سندھ میں 17.8 اور جہلم میں 16.5 فیصد کی کمی ہو گئی ہے۔

ہمیں آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے کیونکہ دشمن ہمارے اندر ہی موجود ہیں ہمیں ان سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ اگر ہماری نیت صاف اور پیسہ ہو تو کوئی بھی منصوبہ سالوں نہیں بلکہ ہفتوں میں بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا دریائے جناب اور جہلم کشمیر سے آتے ہیں بھارت ان کا پانی مکمل طور پر اگر روک لے لیکن دریائے سندھ کا پانی 87 فیصد ہمارے اپنے ملک سے ہی آتا ہے ہمیں اس دریا کے اوپر مختلف آبی ذخائر اور ڈیمز بنانے چاہیے۔

بھاشا ڈیم ‘کالا باغ ڈیم اور اکھوڑی ڈیم کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر ہم نے انڈس پانی کو کنٹرول نہ کیا تو ہم بہت پچھتائیں گے۔ کالا باغ ڈیم نہ بنا تو پانی اسی طرح ضائع ہوتا رہے گا ۔ بارشی پانی کو سٹور کرنا شروع کر دیں تو پھر بھی ہماری بچت ہو سکتی ہے۔ ہمیں ایک اعلی سطحی کمیشن بنانا چاہیے جو آبی ذخائر اور ان کے تحفظ کے لیے کام کرے ۔

بیگم مہناز رفیع نے کہا کہ پاکستان کی ترقی زراعت سے منسلک ہے اور زراعت کے لیے دریائوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کے تحت پاکستان میںآنے والے تمام دریا مقبوضہ کشمیر سے آتے ہیں اور اس لیے پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بانئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی دور اندیشی ہی تھی کہ آپ نے بھی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔

پانی کو ضائع ہونے سے بچائیں اور اسے محفوظ کرنے کیلئے اقدامات اٹھائیں۔ اس کیلئے ہم سب کو ملکر کام کرنا ہو گا۔حاضرین نے متفقہ طور پر یہ سفارشات بھی مرتب کیں کہ بھاشا ڈیم کو جلد ازجلد مکمل کیا جائے نیز کالا باغ اور اکھوڑی ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا جائے۔ منگلا مرالہ نہر کا ڈیزائن تیار ہو چکا ہے لہٰذا اس پر فوری کام شروع کر دیا جائے۔

بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ کی معطلی آبی جارحیت اور مودی سرکار کی طرف سے پاکستان کا پانی روکنے کے عزائم کا سدباب کرنے کی خاطر جنگی بنیادوں پر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ پاکستان کو بھارت کیخلاف ’’ لاء فیئر‘‘ یعنی اپنے عسکری اور جیو پولیٹیکل مقاصد حاصل کرنے کیلئے قانونی نظام کے تزویری استعمال پر توجہ دینی چاہئے۔ بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے مصنوعی جھیلیں بنائی جائیں۔ پانی کے ضیاع کو ہر قیمت پر روکا جائے اور کفایت شعاری سے پانی استعمال کرنے کے متعلق عوامی شعور اجاگر کیا جائے۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات