اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جون 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اصرار کیا کہ وہ حالیہ لڑائی کے بعد بھارت اور پاکستان کو ایک ساتھ میز پر لائیں گے، اور کہا کہ وہ ’’ہر مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔‘‘
گزشتہ ماہ امریکی سفارت کاری نے جوہری ہتھیاروں سے لیس دیرینہ مخالفین کے درمیان چار روز تک جاری رہنے والی لڑائی کو ختم کر دیا تھا اور فائر بندی کرانے میں مدد کی تھی۔
صدر ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مدد کی پیشکش
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فائر بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ممالک نے ’’غیر جانبدار مقام پر وسیع مسائل پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘‘
پاکستان نے اس بیان کا خیرمقدم کیا تھا، جو طویل عرصے سے کشمیر پر بین الاقوامی کردار کا خواہاں ہے، لیکن بھارت، جس کے امریکہ کے ساتھ گرمجوش تعلقات ہیں، نے زیادہ محتاط ردعمل ظاہر کیا۔
(جاری ہے)
ٹرمپ نے کیا کہا؟
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا فائر بندی کے ایک ماہ بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا کوئی منصوبہ باقی ہے، ٹرمپ نے کہا، ’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ان دونوں کو اکٹھا کرنے جا رہے ہیں۔‘‘
صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرسکتے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، ’’میں نے ان (بھارت اور پاکستان) سے کہا کہ ان کی کشمیر پر دیرینہ دشمنی ہے۔
میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں ہر مسئلے کو حل کر سکتا ہوں۔ میں آپ کا ثالث بنوں گا۔‘‘خیال رہے کہ ٹرمپ نے اس سے قبل کہا تھا کہ ’’میں آپ دونوں (بھارت اور پاکستان) کے ساتھ مل کر دیکھوں گا کہ کیا 'ہزار سال‘ کے بعد کشمیر کے بارے میں کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔‘‘
’مودی کا موڈ ٹھیک نہیں ہے‘: ٹرمپ
ٹرمپ نے یہ بات بھی متعدد بار دہرائی ہے کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے رہنماؤں پر دباؤ ڈال کر فائر بندی کرائی تھی۔
انہوں نے کہا تھا،’’پاکستان اور بھارت جوہری جنگ کی طرف بڑھنے والے تھے لیکن میں نے انہیں روکا، میں نے دونوں رہنماؤں کو فون کیا، ان سے بات کی اور کہا کہ اگر آپ جنگ کریں گے تو آپ ہمارے ساتھ تجارت نہیں کر سکیں گے۔‘‘بھارت کا موقف
بھارت خوبصورت ہمالیائی خطہ کشمیر، جس میں مسلم اکثریت ہے لیکن ایک بڑی ہندو اقلیت بھی ہے، پر کسی بھی بیرونی ثالثی کو مسترد کرتا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے 29 مئی کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر کوئی بھی بات چیت دو طرفہ ہونی چاہئے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘
خیال رہے بندوق برداروں نے 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں 26 سیاحوں کا قتل کیا، جن میں سے زیادہ تر ہندو تھے۔
اس واقعے کو اس خطے میں کئی دہائیوں میں شہریوں پر سب سے مہلک حملہ قرار دیا گیا۔بھارت نے پاکستان پر حملہ آوروں کی پشت پناہی کا الزام لگایا اور اس کے جواب میں فوجی کارروائی شروع کی۔ پاکستان اس میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے اور بھارت پر کشیدگی بڑھانے کا الزام لگاتا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین