Live Updates

قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر عام بحث دوسرے روز بھی جاری رہی

ہفتہ 14 جون 2025 21:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 جون2025ء) قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر عام بحث ہفتہ کو مسلسل دوسرے روز بھی جاری رہی، اراکین اسمبلی نے بجٹ کے مختلف پہلوئوں پر اپنے خیالات کااظہارکیا اوربہتری کیلئے تجاویز دیں۔ ہفتہ کوقومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے زرتاج گل وزیر نے کہاکہ مسلسل تیسرے سال میں بھی جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح بہت کم ہے، صنعتیں، زراعت اور مزدور طبقہ متاثر ہو رہا ہے۔

عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، ملک سے نوجوان غیر قانونی طریقے سے باہرجانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کسانوں اور زمین داروں کا2200 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے جبکہ بجٹ میں کسانوں کیلئے معمولی فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

اہم شعبے خسارے کاشکار ہیں۔ بیوائوں کیلئے پنشن کے حصول کی مدت کے تعین کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

انہوں نے کہاکہ بجٹ میں خواتین اور سرائیکی ووسیب کیلئے کوئی سکیم نہیں ہے۔ جمال کاکڑ نے کہاکہ وزیراعظم کی قیادت میں اتحادی حکومت نے بہترین بجٹ دیاہے، بجٹ میں بلوچستان پر توجہ دی گئی ہے، بلوچستان خوشحال ہوگا تو پاکستان خوشحال ہوگا، بلوچستان کیلئے بجٹ میں 2200ارب روپے رکھے گئے ہیں جوخوش آئندہے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں شاہراہوں کے منصوبوں کیلئے اگرفنڈز مختص ہوں تواس سے بہت بہتری آئیگی۔

انہوں نے کہاکہ چمن بارڈر، قمردین اوردیگرمقامات پرکسٹم کے دفاترقائم کئے جائیں تاکہ مقامی کاروبارمتاثرنہ ہوں، بادینی گیٹ وے پرکام ہواہے اسے کھولنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ بھارتی جارحیت کے خلاف مسلح افواج نے جو کارکردگی دکھائی ہے اس کے تناظر میں دفاعی بجٹ میں اضافہ ضروری ہے۔پی پی پی کی رکن شہلارضانے کہاکہ بجٹ میں کئی ٹیکس لگائے گئے ہیں، کاربن لیوی سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا، اقتصادی سروے میں بے روزگاری کاکوئی ذکرنہیں کیاگیاہے۔

صحت،تعلیم اورسماجی بہبودکے شعبوں کیلئے فنڈز میں کمی کردی گئی ہے اس کے برعکس ترقیاتی بجٹ میں 100ارب روپے کااضافہ کیا گیا ہے، صحت اورتعلیم کیلئے بجٹ میں اضافہ ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ زراعت کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں، غذائی سلامتی کوخطرات لاحق ہے، سبسڈی کے حوالہ سے پالیسیوں کادوبارہ سے جائزہ لینا ضروری ہے،کراچی کیلئے کوئی نیامنصوبہ نہیں دیاگیاہے۔

انہوں نے کہاکہ پیٹرولیم مصنوعات پرسیلزٹیکس نہیں ہونا چاہیے۔اقبال آفریدی نے کہاکہ ضم شدہ اضلاع 10سالہ تبدیلی کے دورسے گزررہے ہیں، ان علاقوں میں 10فیصدکی شرح سے سیلزٹیکس کااطلاق کیاگیاہے، یہ اضافہ واپس لیا جائے، ان علاقوں میں تمام بنیادی سہولیات کافقدان ہے، پہلے ان علاقوں کوسہولیات دی جائے اس کے بعد ٹیکسوں کا اطلاق کیا جائے۔ ضم شدہ اضلاع کے اہم منصوبوں کیلئے فنڈز فراہم کئے جائیں، مسمارگھروں کی دوبارہ تعمیرکیلئے فنڈز مختص کئے جائیں۔

انہوں نے کہاکہ فاٹا کواین ایف سی کا3فیصد اورسالانہ 100ارب روپے فراہم کرنے کے وعدے پورے نہیں کئے گئے۔ مسلم لیگ ن کی رکن آسیہ ناز تنولی نے کہا کہ سیاسی و عسکری قیادت نے دنیا میں پاکستان کا ایک مقام بنا دیا اور دنیا میں پاکستان کا سبز پاسپورٹ عزت و وقارسے دیکھا جانے لگا ہے۔ عوام دوست بجٹ پیش کرنے پر وزیر اعظم اور وزیر خزانہ مبارکباد کے مستحق ہیں،24 کروڑ عوام کے لئے بجٹ بنانا آسان کام نہیں،سلامتی،استحکام کے لئے سخت فیصلے کئے گئے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کی سالمیت سب سے مقدم ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان کا نام وپرچم سربلند کیا۔ تحریک انصاف نے اپنے تین سالہ دور حکومت میں نوازشریف اور انکے خاندان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں۔اپوزیشن تنقید کے ساتھ ساتھ مثبت تجاویز دے۔ پیپلز پارٹی کی رکن شرمیلا فاروقی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر 76 کھرب روپے کا قرض ہے، ہمارے سارے وسائل اس پر سود کی ادائیگی میں گزر جاتے ہیں، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس چوری ایف بی آر نے روکنی ہے، اگر وہی ادارہ اپنی ناکامی دکھائے تو ایوان کیا کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقہ کا ٹیکس میں بڑا حصہ ہے، بڑے اداروں کو ٹیکس ریلیف دیا گیا، ڈسکوز اور ایس ای اوز اربوں روپے کا نقصان دے رہے ہیں، حکومت سبسڈی ختم کرکے کئی شعبوں کو ریلیف دے سکتی تھی۔ شرمیلا فاروقی نے کہا کہ 26 ملین بچے سکولوں سے باہر،40 فیصد بچوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، صحت اور تعلیم پر بجٹ معقول نہیں رکھا گیا۔ ثنااللہ مستی خیل نے کہا کہ ملک میں لوڈشیڈنگ بہت زیادہ ہے،بجٹ میں کاشتکاروں کے لئے کچھ نہیں، چھوٹی گاڑیوں پر 18فیصد ٹیکس لگا دیا گیا، مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشکل وقت میں ہم ریاست کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، ہمیں اپنی افواج پر فخر ہے، پاکستان کو اکھٹا کیا جائے، مودی پر ہمیں کوئی بھروسہ نہیں ہے۔کلورکوٹ میں 3 ارب روپے کے پل کے ساتھ لنک روڈز بنائی جائیں۔ دریا خان گیس منصوبے کو مکمل کیاجائے۔ صفیہ سعیدشاہ نے کہاکہ اہم معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے مگرصلاحیت اوراستعدادکے مطابق ٹیکس وصولیاں نہیں ہو رہیں، اضافی کسٹم ڈیوٹی کوچار برسوں اور کسٹم ڈیوٹی کوپانچ برسوں میں ختم کرنے کا اعلان خوش آئند ہے، اسی طرح قرضوں کے بہتر انتظام و انصرام کیلئے اقدامات کا اعلان بھی اہمیت کاحامل ہے، مارک اپ کوفکسڈ رکھنے کی ضرورت ہے۔

ا نہوں نے کہاکہ کے فورکیلئے 3.2 ارب روپے رکھے گئے ہیں، یہ پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی کااہم منصوبہ ہے، اس منصوبہ کیلئے مطلوبہ فنڈز فراہم کئے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ کاربن لیوی کے اطلاق سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا، ریکوریز کیلئے ایف بی آر کومنصفانہ اختیارات ملنے چاہئیں۔ شہزادہ گستاسپ خان نے کہاکہ بہترگورننس کیلئے مزیدانتظامی یونٹس بنانا ضروری ہے، پنجاب کی آبادی 196ممالک سے زیادہ ہے، اسی طرح بلوچستان کارقبہ درجنوں ممالک سے زیادہ ہے،زیادہ صوبے بنانے سے عوامی اورانتظامی مسائل کوکم کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہاکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کواختیارات ملے ہیں تاہم صوبوں سے اضلاع تک وسائل اور اختیارات کی منتقلی نہیں ہوسکی ہے،اختیارات کی تقسیم کے بغیریہ نظام نہیں چل سکتا۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات