Live Updates

کیا بھارت اپنے پڑوسیوں کو نظرانداز کرکے 'وشوا گرو' بن سکتا ہے؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 20 جون 2025 14:20

کیا بھارت اپنے پڑوسیوں کو نظرانداز کرکے 'وشوا گرو' بن سکتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2025ء) بھارت دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے اور وہ بین الاقوامی سیاسی اسٹیج پر ایک اعلیٰ طاقت یا 'وشوا گرو' بننے کی خواہش رکھتا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ سوشل میڈیا ایکس پر لکھا،"بھارت ٹیکنالوجی کے مختلف پہلوؤں میں ایک عالمی رہنما کے طور پر ابھر رہا ہے، چاہے وہ خلاء ہو، مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل اختراع، گرین ٹیکنالوجی یا دیگر شعبے ہوں۔

"

تاہم کچھ ماہرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت کے عالمی عزائم علاقائی ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر آتے ہیں، جو نئی دہلی کی علاقائی بالادستی کی جستجو کے خلاف ہو گئے ہیں۔

بھارت کا عروج ایک ایسے وقت سامنے آیا، جب معاشی عدم استحکام اور سیاسی نزاکت جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان، بھارت کے درمیان جنگ کا خطرہ کم نہیں ہوا ہے، بلاول بھٹو

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی خط افلاس سے نیچے چلی گئی ہے۔

میانمار فوجی حکمرانی کے تحت سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش نے بیل آؤٹ کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے رجوع کیا ہے اور خود بھارت کو فرقہ وارانہ تشدد میں اضافے کا سامنا ہے۔

دوسری جانب چین اقتصادی اور دفاعی حکمت علی کی شراکت داری کو گہرا کر کے پورے جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین ٹریک ٹو سفارت کاری کا زوال

پڑوسی پہلے کی پالیسی کا کیا ہوا؟

سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد، مودی نے پڑوسی ممالک سے متعلق پالیسی ' پڑوسی فرسٹ' کے احیاء کا اشارہ دیا تھا، جس کا مقصد خطے کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنا اور مضبوط کرنا ہے۔

لیکن لندن میں قائم چیتھم ہاؤس میں جنوبی ایشیا کے لیے سینیئر فیلو چیتگ باجپائی نے کہا کہ ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی، "ہمسائے بھارت کی خارجہ پالیسی کا ایک کمزور جز ہے۔

" انہوں کہا، "نئی دہلی کی جانب سے ایک حد تک نرم پہلو کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔"

علاقائی یکجہتی کے لیے بیان بازی کی تو اجازت ہے، تاہم بھارت کی خارجہ پالیسی نے بنیادی طور پر جنوبی ایشیا کے بجائے امریکہ، یورپ اور مشرقی ایشیا کی طرف توجہ مرکوز کی ہے۔

باجپئی نے کہا کہ بھارت میں جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کو دوبارہ فعال کرنے کی اب بہت کم خواہش ہے۔

اس علاقائی بلاک میں افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، مالدیپ، نیپال، پاکستان اور سری لنکا شامل ہیں۔

بلوچستان ٹرین حملہ: بھارت نے اسلام آباد کا الزام مسترد کر دیا

باجپئی کا کہنا ہے، "بھارت کے علاوہ ہر کوئی اس کو بحال کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔" تاہم انہوں نے کہا کہ "بھارت پاکستان تعلقات ،،، سارک کے بحالی کے کسی بھی امکان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

"

بھارت اور پاکستان کے درمیان دشمنی نے سن 2016 کے بعد سے سارک کو پوری طرح سے منجمد کر دیا ہے، جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک مہلک حملے کے بعد نئی دہلی نے اسلام آباد میں ہونے والی سربراہی کانفرنس سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔

نیپال میں مقیم مصنف اور ہمال ساؤتھ ایشین میگزین کے بانی ایڈیٹر کنک منی دیکشت کا کہنا ہے کہ بھارت اکثر علاقائی مسائل پر یکطرفہ رویہ اپناتا ہے۔

سن 2014 میں سارک سیٹلائٹ کے لانچ کا حوالہ دیتے ہوئے، دیکشت نے کہا کہ مودی نے "علاقائی مشاورت کو نظر انداز کر دیا۔"

داخلی سیاست پر مبنی بھارتی خارجہ پالیسی ایک بڑی کمزوری ہے

دیکشت نے کہا، "اپنے پڑوسیوں سے بات کرنے کے لیے کچھ آداب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اسٹریٹجک تنہائی نے نیپال اور سری لنکا جیسے ممالک میں بھارت کے خلاف ناراضگی کو جنم دیا ہے۔

"

دیکشت نے نوٹ کیا کہ دیگر ابھرتی ہوئی طاقتوں، خاص طور پر چین، نے پہلے علاقائی نیٹ ورکس میں سرمایہ کاری کی اور پھر باہر کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔

باجپائی نے مزید کہا کہ "چین نے گلوبلائزیشن سے پہلے علاقائیت کو ترجیح دی۔ بھارت اس کے برعکس کوشش کر رہا ہے۔"

مواقع ضائع

ورلڈ بینک کے مطابق اب جنوبی ایشیا کو دنیا کا سب سے کم اقتصادی طور پر مربوط خطہ سمجھا جاتا ہے۔

علاقائی تجارت خطے کی کل تجارت کا بمشکل پانچ فیصد ہے۔ اس کے برعکس یورپی یونین کی اندرونی تجارت تقریباً 60 فیصد ہے۔

نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں معاشیات کے سابق پروفیسر بسواجیت دھر نے کہا، "جنوبی ایشیا میں بھارت سے باہر 500 ملین لوگوں کی ایک مضبوط مارکیٹ ہے۔" انہوں نے ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل، توانائی اور خدمات جیسے شعبوں کی طرف اشارہ کیا جس میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا، "ہم نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے لیے علاقائی ویلیو چینز کا مطالعہ کیا۔ اس کے نتائج بہت ہی زبردست تھے۔ دھر نے مزید کہا کہ تاہم اس حوالے سے امکانات "تنگ سیاسی تنازعات کی وجہ سے غیر حقیقی معلوم پڑتے ہیں۔"

دیکشت نے دھر کے خیالات کی حمایت کی اور کہا، "یہ وہ خطہ ہے جو تجارت سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے اور پھر بھی ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے۔

"

چینی جہاز لنگر انداز: بھارت مالدیپ کشیدگی میں اضافے کا خدشہ

سری لنکا کے ماہر اقتصادیات گنیشن وگناراجا نے کہا کہ اگر بھارت اپنی سرحدوں کے پار قریبی روابط کو فروغ دے تو معاشی طور پر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

وگناراجا نے کہا، "اگر بھارت اپنے پڑوس کو نظر انداز کرتا ہے، تو وہ چین جیسے دوسرے لوگوں کو پڑوس میں داخل ہونے کی اجازت دے گا۔

اور یہ بھارت کی قومی سلامتی سے سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہو گا۔"

سفارتی دشمنی کے بعد پاکستان کے ساتھ بھارت کی تجارت پوری طرح سے منقطع ہوگئی اور اس طرح دونوں فریق اس معاشی روابط سے محروم ہو چکے ہیں، جو استحکام کو فروغ دے سکتے ہیں۔ چین پہلے ہی بنگلہ دیشی بندرگاہوں، سری لنکا کے ہوائی اڈوں اور پاکستانی موٹر ویز میں سرمایہ کاری کر کے علاقائی خلاء سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

تسلط پر مبنی بھارتی سفارت کاری

دیکشت نے اس بات کو چیلنج کیا، جسے بہت سے لوگ بھارتی سفارتی کاری کو تسلط پر مبنی، قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت، "چاہے گا کہ جنوبی ایشیا کے باقی حصوں کو اس کے تابع رکھا جائے۔ تاہم بھارت کو عالمی سطح پر اچھی کارکردگی دکھانے کے لیے، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ون آن ون خودمختار تعلقات کو قبول کر کے امن قائم کرنا ہو گا۔

"

باجپئی نے کہا کہ بھارت "ان ممالک کی اندرونی سیاست کو کنٹرول نہیں کر سکتا اور اب اثر و رسوخ کا دور نہیں رہا۔"

ماضی میں بھارت نے قلیل مدتی جغرافیائی سیاسی صف بندی کے لیے طویل مدتی علاقائی تعاون کی قربانی دی ہے۔ مثال کے طور پر ایران پاکستان اور بھارت کی گیس پائپ لائن کا حوالہ دیتے ہوئے، دیکشت نے کہا کہ اسے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے تحت امریکی دباؤ کی وجہ سے ترک کر دیا گیا تھا۔

دیکشت نے کہا، "اگر ایسا ہوتا، تو ہم گیس کی ترسیل کے لیے آگے اور پیچھے کی جانب طرف روابط بناتے اور اس سے امن قائم ہوتا۔"

کیا بھارت نیا سفارتی راستہ اختیار کر رہا ہے؟

بھارت کی توجہ انڈو پیسیفک، کواڈ گروپ کی طرف ہے، جو کہ امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل گروپ ہے۔ اس طرح اس کی توجہ مغرب کی طرف مبذول ہو گئی ہے۔

تاہم بھارت کو پائیدار ہونے کے لیے اس کی سرحدیں مستحکم ہونے کی ضرورت ہو گی۔

باجپئی کہتے ہیں، "مشرقی ایشیا کے ساتھ بھارت کی مصروفیت بنگلہ دیش اور میانمار میں عدم استحکام کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ اگر وہ زیادہ وسیع پیمانے پر مشغول ہونا چاہتا ہے، تو اسے اپنی سرحدوں پر موجود ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے۔"

دیکشت نے وضاحت کی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور بننے کی کوششوں سمیت بھارت کی عالمی خواہشات بھی علاقائی خسارے سے دوچار ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یو این ایس سی کی ایک نشست کے لیے علاقائی اعتبار کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب خطہ گڑبڑی کا شکار ہو اور بھارت اس سے آگے نہیں بڑھ رہا ہو، تو وہ اپنا کیس کمزور کر دیتا ہے۔"

وگناراجا نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ "بھارت (شاید) اکیلے ترقی کر سکتا ہے، لیکن اگر وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ چلتا ہے، تو وہ مضبوط پوزیشن میں ہو گا۔"

ص ز/ ج ا (عادل بھٹ، نئی دہلی)

Live ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات