کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جون2025ء) وفاقی وزیرِ صحت سید مصطفی کمال نے کہا ہے کہ پاکستان میں صحت کا نظام بیپناہ مسائل سے دوچار ہے، اسپتال بنانے سے نہیں بلکہ پورے ماحول کو بہتر بنانے سے مسائل حل ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) میں صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب میں کاٹی کے صدر جنید نقی، ڈپٹی پیٹرن ان چیف زبیر چھایا، قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سلیم الزماں، ممبر صوبائی اسمبلی نجم مرزا، مسعود نقی،گلزار فیروز، شیخ عمر ریحان، سینئر نائب صدر اعجاز احمد شیخ، نائب صدر سید طارق حسین و دیگر ممبران بھی موجود تھے۔مصطفی کمال نے کہا کہ پاکستان میں وسائل کے مقابلے میں آبادی کا بڑھنے کا تناسب بہت زیادہ ہے۔
(جاری ہے)
آبادی کی سالانہ شرح 2.6 فیصد جبکہ شرح افزائش 3.6 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم نے اس تناسب پر نظرثانی نہ کی تو تباہی مچ جائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پمز اسپتال میں ایک ڈاکٹر کے پاس 40 مریضوں کی گنجائش ہے، لیکن وہاں 250 مریض چیک اپ کے لیے آتے ہیں۔ مصطفی کمال نے صحت سے جُڑے بنیادی مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 68 فیصد بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی ہے، جبکہ سیوریج ٹریٹمنٹ کا کوئی جامع منصوبہ موجود نہیں۔
ہمارے ہاں ہیلتھ کیئر سسٹم نہیں بلکہ سِک کیئر سسٹم رائج ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان ذیابیطس اور ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں میں دنیا میں سرفہرست ہے۔ دنیا بھر سے پولیو ختم ہو چکا ہے، لیکن پاکستان اور افغانستان میں اب بھی موجود ہے۔ انہوں نے صحت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم پبلک-فلنتھراپک پارٹنرشپ کے ذریعے نظامِ صحت میں اصلاحات لا رہے ہیں۔
مصطفی کمال نے مزید کہا کہ کورونا کے دوران متعارف کروائی گئی ٹیلی-میڈیسن سروس کو مزید وسعت دی جائے گی تاکہ شہریوں کو دوائیں اور ڈاکٹرز کی سہولت دہلیز پر فراہم کی جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ نادرا کے ساتھ مل کر شناختی کارڈ نمبر کو میڈیکل ریکارڈ نمبر (MRN) میں تبدیل کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے، جس پر جلد قانون سازی ہوگی۔ پاکستان میں 1 لاکھ 70 ہزار نرسیں ہیں، جب کہ ہمیں 9 لاکھ کی ضرورت ہے۔
دنیا ہم سے 25 لاکھ نرسیں مانگ رہی ہے، اور یہ شعبہ پاکستان کے لیے اربوں ڈالر کے زرمبادلہ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔وزیر صحت نے کہا کہ پاکستان کے بڑے اسپتالوں پر اضافی بوجھ ہے، جہاں 70 فیصد ایسے مریض آتے ہیں جنہیں بنیادی صحت مراکز سے رجوع کرنا چاہیے۔ ہمیں پرائمری کیئر کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ سر درد جیسی چھوٹی شکایات کے مریض دل کے مریضوں کے ساتھ ایک ہی اسپتال نہ جائیں۔
انہوں نے کراچی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، یہ شہر اگر کسی اور کے پاس ہوتا تو آج اس کے حالات بدل چکے ہوتے۔ آج ہمارے پاس اختیار نہیں، لیکن ہم اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس کی خدمت کررہے ہیں۔ قبل ازیں کاٹی کے صدر جنید نقی نے کہا کہ کورنگی صنعتی ایریا پاکستان کا اقتصادی دل ہے جو روزانہ 60 کروڑ روپے سے زائد کا ریونیو پیدا کرتا ہے اور یہاں سے سالانہ 4 ارب ڈالر کی برآمدات ہوتی ہیں۔
یہ صنعتی علاقہ 20 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے، لیکن افسوس ہے کہ اس شہر کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ جنید نقی نے کہا کہ کورنگی صنعتی علاقہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جہاں سے نہ صرف اربوں روپے کا ریونیو پیدا ہوتا ہے بلکہ لاکھوں لوگوں کا روزگار بھی وابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس قدر اہمیت کے باوجود کورنگی صنعتی علاقے اور مجموعی طور پر کراچی کو صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔
اسپتالوں اور بنیادی صحت مراکز کی کمی کے باعث یہاں کے محنت کش اور ان کے خاندان معمولی بیماریوں کے علاج کے لیے بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ صدر کاٹی نے مزید کہا کہ کراچی جیسے بڑے اور معاشی لحاظ سے فیصلہ کن شہر کے ساتھ مسلسل سوتیلا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ہم وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی خصوصاً کورنگی صنعتی علاقے میں صحت کی سہولیات کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں اور عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ یہاں کے لوگوں کو بہتر زندگی مل سکے۔
صحت مند شہری ہی ایک مضبوط معیشت کی بنیاد ہوتے ہیں۔ انہوں نے وفاقی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی ادارے، خاص طور پر ایف بی آر کی پالیسیوں سے بزنس کمیونٹی بہت پریشان ہے۔ ہم وزیرِ صحت سے گزارش کرتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کو کہیں کہ اب کراچی پر توجہ دینے کا وقت آ چکا ہے۔ ڈپٹی پیٹرن ان چیف کاٹی، زبیر چھایا نے کہا کہ کراچی کو اس کا حق نہیں مل رہا۔
ملک بھر میں شاہراہیں بن رہی ہیں، لیکن کراچی کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس شہر نے ہمیشہ ملک کی معیشت کو سہارا دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کی صحت اور معیشت دونوں پر فوری توجہ دی جائے۔ زبیر چھایا نے کراچی کی معاشی اہمیت اور وفاقی حکومت کی عدم توجہی پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیرِ صحت مصطفی کمال کو کراچی سمیت ملک بھر کے صحت کے مسائل کا ادراک ہے اور ان کے حل کے لیے ٹیکنالوجی اور عوامی شراکت پر مبنی نئے ماڈل کی منصوبے خوش آئند ہیں۔
زبیر چھایا نے مزید کہا کہ مصطفی کمال کی بطور میئر خدمات قابل تعریف ہیں، اور انہوں نے صنعتی علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے جو ترقیاتی کام کئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔پچھلے 6 تا 8 ماہ میں حکومت کی مثبت پالیسیوں کے نتیجے میں ایکسپورٹ کی شرح میں بہتری آئی جو کہ قابل ستائش ہے۔ ادارے کو ڈیجیٹلائزیشن کی طرف پیش قدمی خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی شہر کی ترقی اور تمام شعبوں میں بہتری کے لئے مل کر موثر جدوجہد کی جائے تاکہ پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہو۔
تقریب سے کاٹی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سلیم الزماں نے کہا کہ پاکستان کی فارما سیوٹیکل صنعت کی بڑی صنعتیں کورنگی صنعتی علاقے میں واقع ہیں، جو ملکی برآمدات اور محصولات میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے فارما انڈسٹری کو جس رفتار سے ترقی کرنی چاہیے تھی، وہ نہیں ہو سکی۔ سلیم الزماں نے امید ظاہر کی کہ وفاقی وزیرِ صحت اس حوالے سے فعال کردار ادا کریں گے، خاص طور پر پاکستانی فارما مصنوعات کے لیے FDA منظوری کے حصول میں۔ انہوں نے کہا کہ FDA اپروول سے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ پاکستان کو اپنے پڑوسی ملک کے برابر لا کھڑا کرنے میں مدد ملے گی۔