وزیراعظم نے چینی کا شعبہ ڈی ریگولیٹ کرنے کیلئے اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کر دی

کمیٹی 30 روز میں وفاقی و صوبائی قوانین، قواعد وضوابط اور پالیسیوں کا جائزہ لے کر سفارشات وزیراعظم کو پیش کریگی، کمیٹی شوگر سیکٹر میں اصلاحات اور نجکاری کیلئے قابل عمل تجاویز مرتب کرے گی، وزیر توانائی کمیٹی کے چیئرمین، وزارت صنعت و پیداوار کے سیکرٹری کمیٹی کے کنوینر ہوں گے

Faisal Alvi فیصل علوی جمعرات 17 جولائی 2025 15:00

وزیراعظم نے چینی کا شعبہ ڈی ریگولیٹ کرنے کیلئے اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17جولائی 2025)وزیراعظم شہباز شریف نے چینی کے شعبے کو ڈی ریگولیٹ کرنے کیلئے وزیر توانائی کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی، کمیٹی 30 روز میں وفاقی و صوبائی قوانین، قواعد وضوابط اور پالیسیوں کا جائزہ لے کر سفارشات وزیراعظم کو پیش کرے گی، وزیر توانائی کمیٹی کے چیئرمین، وزارت صنعت و پیداوار کے سیکرٹری کمیٹی کے کنوینر ہوں گے۔

وزیر خزانہ، وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق، وزیر اقتصادی امور کمیٹی کے ارکان ہوں گے اس کے علاوہ وزارت غذائی تحفظ و تحقیق، وزارت تجارت کے سیکریٹریز، چیئرمین ایف بی آر، پنجاب اور سندھ کے چیف سیکریٹریز، لیمز کے ڈاکٹر اعجاز نبی، لمز کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ظہور حسن کمیٹی کے ارکان میں شامل ہوں گے۔

(جاری ہے)

کمیٹی کے ضوابط کار (ٹی او آرز) کے مطابق کمیٹی وفاقی و صوبائی سطح کے تمام موجودہ قوانین، قواعد، ضوابط اور پالیسیوں کا جائزہ لے گی جن کا تعلق چینی کی پیداوار، درآمد، برآمد، قیمتوں کے تعین، سبسڈی اور ذخیرہ اندوزی سے ہوگا۔

کمیٹی پاکستان کے شوگر سیکٹر میں اصلاحات اور نجکاری کیلئے قابل عمل تجاویز مرتب کرے گی۔ کمیٹی صارفین کو قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے بچانے کیلئے پالیسی سفارشات مرتب کرے گی۔ کمیٹی شفاف نجکاری کیلئے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرے گی۔ علیٰ سطحی کمیٹی کسانوں، صارفین کے حقوق، مقامی ضرورت اور تجارتی تقاضوں کے تحت پالیسی مرتب کرے گی۔ وزیر توانائی کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی صارفین کے تحفظ اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے خطرے سے بچاؤ کیلئے سفارشات دے گی جبکہ نجکاری کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز، بشمول صنعتکاروں، کسانوں اور اداروں سے مشاورت کرے گی۔

کمیٹی ذخائر، رسد، قیمت، کسانوں اور صارفین کے حقوق اور ضرورت کے مطابق سفارشات تیار کرے گی۔ چینی کی پیداوار، درآمد، برآمد، قیمتوں کے تعین، سبسڈی اور ذخیرہ اندوزی سے متعلق امور بھی شامل ہیں۔ ماہرین کا یہ انضمام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت پالیسی سازی میں تحقیق اور علمی بصیرت کو بھی اہمیت دے رہی ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ شوگر ایڈوائزری بورڈ نے ملک سے 5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی تھی جس کے بعد چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا تھا تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس چھوٹ کی اجازت نہ ملنے پر حکومت نے چینی برآمد روک دی تھی۔

آئی ایم ایف نے چینی پر سبسڈی اور ٹیکس کی چھوٹ دینے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے اقدامات سے 7 ارب ڈالر قرض پروگرام متاثر ہونے کا خدشہ ہو سکتا تھا۔بعدازاں وفاقی حکومت نے پہلے مرحلے میں 3 لاکھ کے بجائے 50 ہزار میٹرک ٹن چینی درآمد کا فیصلہ کرتے ہوئے 22 جولائی 2025 تک بولیاں طلب کر لیں جو اس سے قبل 18 جولائی 2025 تک کی گئی تھیں۔