اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جولائی 2025ء) انسانی حقوق محض قوانین کی چند دفعات یا اقوامِ متحدہ کے کسی اعلامیے کا نام نہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار معاشروں میں اختلاف رائے کو غداری نہیں کہا جاتا، سچ کو سازش نہیں مانا جاتا، تنقید کو گستاخی نہیں گردانا جاتا، ریاست کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ایک آلہ نہیں بنایا جاتا، اداروں کو انا کی تسکین اور ذاتی رنجش چکانے کا ذریعہ نہیں بنایا جاتا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں ملتے تو پھر وہ بغاوت کی راہ اپناتے ہیں۔ فرانس کے عوام نے بادشاہ لوئی شانزدہم کے خلاف علمِ بغاوت اسی لیے بلند کیا کہ ان کے بنیادی حقوق جیسا کہ مساوی سلوک، روزگار اور تعلیم کا حق سلب کیے جا رہے تھے۔
(جاری ہے)
انقلابِ فرانس نے "انسانی حقوق کا منشور" پیش کیا، جس نے دنیا بھر کے سیاسی نظریات پر گہرا اثر ڈالا۔
پھر جان لاک، روسو اور منتسکیو جیسے فلسفیوں نے انسان کو آزادی اور حقوق کا سبق پڑھایا جو معاشرتی بقا اور ہم آہنگی کا ضامن بنا۔ جان لاک نے لکھا، "ہر انسان کو زندگی، آزادی اور جائیداد کے تحفظ کا فطری حق حاصل ہے۔"
یہی وہ فکر تھی جس نے جدید جمہوری معاشروں کی بنیاد رکھی۔ امریکہ کا آئین، اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور دنیا کے بیشتر مہذب معاشروں کے آئینی ڈھانچے، سب انہی نظریات کے عکاس ہیں۔
اسی طرح اسلام نے بھی چودہ سو سال قبل ہی انسانی تکریم کا سبق پڑھایا اور بنیادی انسانی حقوق کو وضح کیا۔یہی وہ عزت ہے، جس کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب ریاست شہری کی بطور انسان تکریم کو بھلا دے، اس کی رائے کو اہم نہ جانے، اس کے جان و مال کو خود ہی اپنے قدموں تلے روندتی رہے اور اس کا منسٹر یہ بیان دے کہ اسٹیبلشمنٹ تو شہریوں پر طاقت کے استعمال کا حق رکھتی ہے تو اس ریاست پر، اس کی بنیادوں پر اور سوشل کونٹریکٹ پر سوال اٹھنے لگتے ہیں۔
اسی لیے انسانی حقوق کو نافذ کرنا کوئی احسان نہیں، بلکہ ریاست کا اخلاقی اور قانونی فرض ہے۔جارج اورویل کا ایک مشہور ڈسٹوپین ناول ہے 1984 جوکہ ایک ایسے معاشرے کا عکاس ہے جہاں مکمل آمرانہ نظام رائج ہے۔ بگ برادر سچ کو جھوٹ میں، تاریخ کو پراپیگنڈہ میں بدل دیتا ہے۔ وہاں کا شہری سچ بولنے کی خواہش رکھتا ہے، لیکن بولنے کی اجازت نہیں۔
آج کا پاکستان کئی حوالوں سے ایک سیاسی ڈسٹوپیا کی جھلک دیتا ہے، جہاں اظہارِ رائے جرم، اختلاف غداری، اور انصاف ایک خواب بن چکا ہے۔آج کا پاکستان جبر، طاقت کی ہوس اور اخلاقی زوال کی ایسی کہانی ہے جو ولیم گولڈنگ کے ناول لارڈ آف فلائز سے ملتی جلتی ہے۔ جہاں کچھ بھٹکے ہوئے بچے ایک جزیرے پر جا پہنچتے ہیں اور اس جزیرے پر قانون اور سماجی نظم قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر جلد ہی طاقتور بچے دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور جمہوریت کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ بالکل اس جزیرے جیسا ہو چکا ہے، جمہوریت کا نام تو ہے، مگر جیسے کہ خواجہ آصف نے کہا کہ ہائبرڈ نظام ہی بہترین نظام ہے۔ یہاں پر جیک حکومت کر رہے ہیں اور پگی جیسے ظلم کے خلاف بولنے والے لوگ مر رہے ہیں۔معاشرہ جہاں اظہارِ رائے پر پابندی ہو، جہاں شہریوں کو یہ ڈر ہو کہ اگلا سوال ان کی آخری آزادی چھین لے گا، وہ معاشرہ آخر کب تک قائم رہ سکتا ہے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی ریاستیں جو خوف پر قائم ہوتی ہیں، وہ جلد یا بدیر اپنے ہی وزن سے گر جاتی ہیں۔
چاہے وہ فرانس کا بادشاہ ہو، روس کا زار، یا بغداد کے عباسی خلفاء—جب عوام کی آواز دبائی جاتی ہے تو آوازیں گم نہیں ہوتیں، وہ بغاوت میں بدل جاتی ہیں۔پنجاب میں جون 2024 میں منظور ہونے والا نیا ہتکِ عزت قانون ایک قانونی لبادہ اوڑھے جبر کا چہرہ ہے۔ یہ قانون اس قدر مبہم ہے کہ صرف ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر بھی گرفتاری ہو سکتی ہے۔ اس قانون کو صحافتی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، کیونکہ ان کے مطابق یہ قانون آزادی اظہار رائے کے لیے خطرہ ہے۔
اس قانون کا اطلاق نہ صرف روایتی میڈیا بلکہ سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹس پر بھی ہوتا ہے۔ اس کے تحت مدعی کو کسی قسم کے نقصان کا ثبوت دیے بغیر قانونی چارہ جوئی کی اجازت دی گئی ہے ۔صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے "کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس" کے مطابق، 2024 کے دوران پاکستان میں کم از کم سات صحافی قتل کیے گئے اور 164 صحافیوں پر حملہ کیا گیا۔
کیا کسی جمہوری ملک میں قلم کے بدلے موت بانٹی جاتی ہے؟ یا پھر یہ دستور ہمارا ہی ہے "بولتے جو چند ہیں سب شرپسند ہیں۔ ان کی کھینچ لے زباں، ان کا گھونٹ دے گلا"۔ لیکن کیا کسی نے سوچا ہے کہ 25 کروڑ زبانیں کھینچی جا سکتی ہیں؟دوسری جانب ملک میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری میں شدید اضافے نے کروڑوں لوگوں کے لیے صحت، خوراک اور ایک مناسب معیارِ زندگی جیسے بنیادی انسانی حقوق کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے پروگرام کی شرائط میں سبسڈی کا خاتمہ بھی شامل تھا، جس کے لیے حکومت نے مناسب متبادل اقدامات نہیں کیے، جس سے کم آمدنی والے افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔سال 2025 کا بجٹ عوام کے لیے ایک ایسی خوفناک حقیقت بن چکا ہے جس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ لیکن اگر اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائی جائے، عوام پر ٹیکس کا بوجھ اور حکومتی مراعات میں اضافے پر سوال اٹھایا جائے تو ایک مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ منسلک کر کے انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
عوام مہنگائی کی چکی میں پستے بھی جا رہے ہیں اور ستم یہ کہ وہ اس پر سوال بھی نہیں اٹھا سکتے کیونکہ وہ خود اٹھا لیے جائیں گے۔ستم یہ ہے کہ یہ پابندی صرف آزادی رائے تک محدود نہیں۔ جہاں عوام کو خاموش کیا جاتا ہے وہاں وہ اپنا فیصلہ ووٹ کی طاقت سے سناتے ہیں مگر وہ طاقت، وہ اختیار تک ان سے چھین لیا گیا۔ جن کو عوام نے ووٹ دیا وہ پس پشت چلے گئے اور آنکھ کے تارے حکومت بنا بیٹھے، وہ حکومت جس کے پاس عوام کے ووٹ کی طاقت نہیں۔
پھر عوام نے عدالتوں کی طرف دیکھا، جج روتے رہے، اپنی بےبسی سناتے رہے۔ جج بھی کہتے رہے کہ ہم بھی انتظار کر رہے ہیں کہ غائب شدہ لوگ بازیاب ہو جائیں۔ آپ بھی دعا کریں ہم بھی کرتے ہیں اور ان دعاؤں کے نتیجے میں پاس ہوئی چھبیسویں آئینی ترمیم۔ مبارک سلامت کا شور اٹھا۔ آخر عدلیہ کو آزار کروا لیا گیا۔ پھر اس آزاد عدلیہ نے فیصلہ صادر کیا کہ سویلین کا فوجی ٹرائل جائز ہے، صحافیوں کے یوٹیوب چینل بین کرنا عین عوامی مفاد میں ہے۔ اب عوام کے پاس نہ کوئی منزل ہے، نہ منزل کی سمت۔ بس بے چینی ہے، مایوسی ہے ۔پہلے بنیادی حقوق کی لڑائی میں امید کی کرن نظر آتی تھی، مگر اب جبری گمشدگی یا تشدد دکھائی دیتے ہیں۔لیکن کیا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟ فیض احمد فیض نے بھی پوچھا تھا
دوستو، کوئے جاناں کی نا مہرباں
خاک پر اپنے روشن لہو کی بہار
اب نہ آئے گی کیا؟ اب کھلے گا نہ کیا
اس کف نازنیں پر کوئی لالہ زار؟
اس حزیں خامشی میں نہ لوٹے گا کیا
شور آواز حق، نعرۂ گیر و دار
پاکستان کے عوام یہ جان چکے ہیں کہ لڑائی مشکل ہے، راستہ کٹھن اور منزل دور مگر یہ لڑائی لڑنی ہو گی۔
اپنی بقا کے لیے، آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔