غیرت کے نام پر قتل شرعی لحاظ سے ناجائز ہے، مولانا فضل الرحمن
جنرل مشرف کے زمانے میں حقوقِ نسواں کے نام سے ایک بل آیا، جسے پیپلز پارٹی نے دو تہائی ووٹوں کی اکثریت مہیا کی
دہشتگرد افغانستان کیسے گئے اور واپس کیسے آئی اگر ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ بھی عوام پر ڈالے گی تو اس سے بڑی کوئی ناکامی نہیں
ویں آئینی ترمیم جب حکومت کی جانب سے پیش کی گئی تو وہ اپنی اصلی مسودے کے اعتبار سے کسی بھی صورت قبول کرنے کے قابل نہیں تھی،جے یوآئی سربراہ
بدھ 23 جولائی 2025
20:55
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2025ء)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ غیرت کے نام پر کسی کو بھی قتل کرنا شرعی لحاظ سے ناجائز ہے اس حوالے سے مجھے کوئی اختلاف یا تردد نہیں ہے،جنرل مشرف کے زمانے میں حقوقِ نسواں کے نام سے ایک بل آیا، جسے پیپلز پارٹی نے دو تہائی ووٹوں کی اکثریت مہیا کی، اس بل میں زنابالرضا کو پروسیجر اور آئینی ترامیم کے حوالے سے سہولیات مہیا کی گئی، یہ کیسا ملک ہے یہاں تو جائز نکاح کے لیے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں،دہشتگرد افغانستان کیسے گئے اور واپس کیسے آئی اگر ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ بھی عوام پر ڈالے گی تو اس سے بڑی کوئی ناکامی نہیں،26 ویں آئینی ترمیم جب حکومت کی جانب سے پیش کی گئی تو وہ اپنی اصلی مسودے کے اعتبار سے کسی بھی صورت قبول کرنے کے قابل نہیں تھی۔
(جاری ہے)
ملی یکجہتی کونسل کے قومی مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قانون بناتے وقت عوامی نمائندے اپنی سوسائٹی کو دیکھتے ہیں اور اس کے مزاج کو پرکھتے اور اس کی ویلیوز کا احترام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری سوسائٹی میں یہ چیزیں قابل قبول نہیں ہو سکتی، سوسائٹی کے اپنے اقدار ہیں، چاہے جاہلانہ ہیں، چاہے جو کچھ بھی ہیں لیکن ہمیں سب کچھ مدنظر رکھ کر ایک متوازن قانون سازی کی طرف جانا ہوگا، یہ بھی بالکل غلط ہے کہ آپ زنا کیلئے سہولیات پیدا کریں اور جائز نکاح کیلئے مشکلات پیدا کریں یہ کون سا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔
انہوں نے کہا کہ یہاں یہ بحث ہو رہی تھی کہ 18 سال سے کم عمر لڑکا، لڑکی اگر نکاح کرتے ہیں تو ان دونوں سمیت نکاح خواں، والدین اور گواہ، سب سزا کے مستحق ہوں گے، ہمیں یہ جاننا ہے کہ یہ کس کا ایجنڈا ہے جو جائز نکاح میں رکاؤٹیں کھڑی کر رہا ہے، اس طرح بے راہ روی کے لیے راستے کھلیں گے۔سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ جنرل مشرف کے زمانے میں حقوقِ نسواں کے نام سے ایک بل آیا، جسے پیپلز پارٹی نے دو تہائی ووٹوں کی اکثریت مہیا کی، اس بل میں زنابالرضا کو پروسیجر اور آئینی ترامیم کے حوالے سے سہولیات مہیا کی گئی، یہ کیسا ملک ہے یہاں تو جائز نکاح کے لیے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے علما نے ملک کے اندر مسلح جنگ کو مسترد کیا ہے، پاکستان کے اندر دینی مقاصد کے لیے علما نے اسلحہ اٴْٹھانے کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔سربراہ جمعیت عمائے اسلام (ف) نے کہا کہ سوات سے لے کر وزیرستان تک آپریشن ہوئے، لوگ اپنے ملک میں مہاجر ہوئے، 10، 10 سال تک اپنے گھروں کو نہیں جا سکے۔
اداروں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے دہشتگردی کا خاتمہ کر دیا ہے، آج دہشتگردی کا خاتمہ بہت دور کا لفظ ہے، یہاں تو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومتی رٹ کے نام کی کوئی چیز نہیں ہے، سورج غروب ہوتے ہی مسلح افراد سڑکوں پر آجاتے ہیں۔سربراہ جمعیت علما اسلام (ف) نے سوال اٴْٹھایا کہ یہ دہشتگرد افغانستان کیسے گئے اور واپس کیسے آئی اگر ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ بھی عوام پر ڈالے گی تو اس سے بڑی کوئی ناکامی نہیں، انہوں نے کہا کہ بدامنی اداروں کی نااہلی کی وجہ سے ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے ذمہ دار ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب میں اس کو نااہلی کہوں، یا شعوری طور پر ایسا کیا جا رہا ہی بھارت سے لڑائی ہوتی ہے تو اتنے بڑے بھارت کو 4 گھنٹوں میں لپیٹ دیا گیا اور یہ 40 برسوں سے ہمارا خون بہا رہے ہیں اور ہم قربانیوں پر قربیانیاں دے رہے ہیں، لہذا اب دہشت گردی کا سدباب ضروری ہے۔کشمیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر ہمارا ریاستی مؤقف ہے، ریاست اپنے مؤقف میں زرہ برابر بھی ابہام نہیں چھوڑتی اور بنیادی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
انہوں نے فاٹا کے انضمام کے حوالے سے فیصلوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے انضمام کا فیصلہ غلط تھا، لیکن اس وقت ہمارا مؤقف نہیں سنا گیا، آج وہی حکومت پشاور میں بیٹھ کر قبائلی کے سامنے کہتی ہی کہ لگتا ہے انضمام کا فیصلہ ناکام ثابت ہوا، ہم کمیشن بنا کر اس اہم مسئلے پر غور کریں گے، فاٹا کے اسٹیٹیس کو پھر سے تبدیل کرنے کے لییاسمبلی سے دو تہائی اکثریت لازم ہو گی۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم جب حکومت کی جانب سے پیش کی گئی تو وہ اپنی اصلی مسودے کے اعتبار سے کسی بھی صورت قبول کرنے کے قابل نہیں تھی، حکومت نے اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے الجت دکھائی، اور ہمیں کہا گیا کہ صرف 2 سے 3 گھنٹے کے اندر حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ووٹ بھی دیں لیکن ہم نے مسودہ حاصل کرنے کے بعد ایک ماہ سے زائد عرصے تک حکومت سے بات چیت کی اور ترمیمی مسودہ میں سے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار ہونے پر آمادہ کیا۔
سربراہ جمعیت علما اسلام (ف) نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کا فیصلہ دیا اور اس کے لیے 31 دسمبر 2027 کی ڈیڈ لائن مقرر کی، عدالت کے فیصلے اور 26 ویں آئینی ترمیم کی روح سے یکم جنوری 2028 سے پاکستان سے سود مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔اسرائیلی کی فلسطینیوں کیخلاف جارحیت پر انہوں نے کہاکہ اسرائیل و فلسطین روز اول سے حالت جنگ میں ہیں، اسرائیل ایک قابض ریاست ہے، ہزاروں فلسطینی وہاں شہید ہو چکے ہیں، امدادی خوراک کو بھی پہنچانے میں بھی رکاؤٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔