واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے زیراہتمام ویبنارکا انعقاد ،مقررین کی بھارت کے 5اگست 2019کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات کی مذمت

جمعرات 7 اگست 2025 01:20

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 اگست2025ء) واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے نے بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی غیر قانونی اور یکطرفہ منسوخی کے چھ سال مکمل ہونے کے موقع پر یوم استحصال کشمیر منایا، بھارت نے غیرقانونی اقدامات کے ذریعے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ یادگاری تقریب کا آغاز ایک منٹ کی خاموشی اختیار کر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ ان کی دلیرانہ جدوجہد میں اظہار یکجہتی کیلئے ہوا۔

واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ یوم استحصال کشمیر کی مناسبت سے کشمیری شناخت کیلئے خطرہ کے عنوان سے ویبنار کا انعقاد کیا، جس میں ممتاز مقررین، اسکالرز، کمیونٹی ممبران، امریکہ بھر میں پاکستان کے سفارتخانے اور قونصل خانوں کے عہدیداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ارکان نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

ویبنار میں صدرپاکستان آصف علی زرداری، وزیر اعظم محمدشہباز شریف اور نائب وزیر اعظم اوروزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے جن میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کی غیر متزلزل سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔

ویبنار میں ڈاکٹر غلام نبی فائی، سینیٹر(ر)مشاہد حسین سید، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر منیر اکرم اور برطانوی تاریخ دان اور مصنفہ ڈاکٹر وکٹوریہ شوفیلڈ جیسی نامورشخصیات نے مسئلہ کشمیر کو موثر انداز سے اجاگر کیا۔ مقررین نے خطے میں بھارت کی آبادیاتی اور پولیٹیکل انجینئرنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے علاقائی اور عالمی امن، سلامتی اور استحکام کیلئے ان کے منفی اور بڑھنے والے مضمرات سے خبردار کیا۔

اپنے ابتدائی کلمات میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ جبر کی وحشیانہ تاریخ نے یقینی طور پر اپنا سب سے خطرناک موڑ 5 اگست 2019 کو لیا جب بھارت نے یکطرفہ طور پر بھارتی آئین کے متعلقہ آرٹیکلز کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا، انہوں نے پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے ساتھ حالیہ جھڑپوں کے بعد پاکستان کی قومی ساکھ اور وقار کی بحالی کا حوالہ دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، اسے ہندوستان کے ڈیزائن اور خواہش کے خلاف پھر سے اجاگر کیا گیا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شوفیلڈ نے شمالی آئرلینڈ کے امن ماڈل کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے مکالمے، ثالثی اور جامع امن عمل کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ مستقبل کے کسی بھی مذاکرات میں کشمیری عوام کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے اور بین الاقوامی ثالثی پائیدار امن کی راہ ہموار کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

سینیٹر(ر)مشاہد حسین سید نے اپنے ریمارکس میں بھارتی حکومت کے فاشسٹ ہندوتوا نظریے پر روشنی ڈالی جو جموں و کشمیر پر ناجائز قبضے کو ہوا دے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم صرف اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر کئے گئے ایک عام قبضے یا علاقے کے الحاق کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم نفرت کے ایک مخصوص نظریے کی بات کر رہے ہیں جو بھارت کی چالوں کے پیچھے ہے، جسے ریاستی دہشت گردی کی پالیسی سے تقویت ملتی ہے۔

انہوں نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش اور اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ تسلیم کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو بھی سراہا۔سابق سینیٹر نے کہا کہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کو بھی سراہنا چاہوں گا کہ امریکی حکومت کی اعلی ترین سطح پر اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کی بنیادی وجہ کشمیر ہے۔

منیر اکرم اور ڈاکٹر فائی نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی توثیق میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں بالخصوص80، 91 اور 122 کی قراردادوں کی مرکزیت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ بھارت نے کبھی بھی ان قراردادوں کو باضابطہ طور پر مسترد نہیں کیا لیکن اس کے باوجود کھلی خلاف ورزی جاری رکھی۔ قرارداد 122 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کوئی یکطرفہ اقدام اقوام متحدہ کی نگرانی میں مقررہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا متبادل نہیں بنے گا۔

ڈاکٹر غلام نبی فائی نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی، جس میں وسیع پیمانے پر زمینوں پر قبضے، انتظامی تبدیلیاں اور خطے کی آبادی کو تبدیل کرنے کیلئے بنائے گئے قانونی حربے شامل ہیں۔ انہوں نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 17 کا حوالہ دیا، جس میں جائیداد کے حق کا تحفظ فراہم کیا گیا تھا اور زمینوں پر قبضے اور جبری آبادیاتی تبدیلی کے غیر قانونی ہونے پر زور دیا گیا تھا۔

سابق سفیر منیر اکرم نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 25 تمام رکن ممالک کو سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرنے کا پابند کرتا ہے، جس سے ہندوستان کے اقدامات واضح، مستقل اور اس کے بین الاقوامی وعدوں اور ذمہ داریوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔بھارت کا رویہ حالیہ واقعات سے کھل کر سامنے آیا ہے، یہ ایک انکوائری کمیشن اور عالمی احتساب کو آگے بڑھانے کا ایک اچھا موقع ہے۔

ویبنار میں مقررین کی طرف سے تجویز کردہ تنازعہ کشمیر کے پرامن حل اور بین الاقوامیت کی طرف آگے بڑھنے کے راستے پر اتفاق اور تعریف کا اظہار کیا۔آخر میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ نے معزز مقررین اور تمام شرکا کا ویبنار میں شامل ہونے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بین الاقوامی قانون اور متعلقہ سپریم کورٹ کی پریس ریلیز کے مطابق کشمیری عوام کی حق خودارادیت کے ناقابل تنسیخ حق کے حصول کیلئے پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا گیا۔