اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 ستمبر 2025ء) بھارت کو اب امید ہے کہ اس کی جنگی صلاحیتوں کے مظاہرے، جن میں ملکی طور پر تیار کردہ ''غیر مرئی ڈھال‘‘ میزائل دفاعی نظام بھی شامل تھا، سے عالمی سطح پر اس کے ہتھیاروں کی مانگ میں اضافہ ہو گا۔
بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے اگست میں کہا تھا، ''یہ آپریشن جنگ کے نئے فن، ایک نئے ویژن، تکنیکی ترقی اور خود انحصاری کی علامت تھا۔
‘‘کبھی دنیا کے بڑے اسلحہ درآمد کنندگان میں سے ایک بھارت، اب خود کو ایک بڑے ہتھیار ساز اور برآمد کنندہ کے طور پر پیش کرنے کا پختہ ارادہ رکھتا ہے۔
دفاعی برآمدات 2024-25 میں ریکارڈ 2.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو اب بھی بڑے کھلاڑیوں کے مقابلے میں گو کہ کم ہیں، مگر پچھلے سال کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ اور ایک دہائی پہلے سے 34 گنا زیادہ ہیں۔
(جاری ہے)
ملکی دفاعی پیداوار بھی بڑھ کر ریکارڈ 18 ارب ڈالر تک جا پہنچی، جو پانچ سال میں تقریباً دگنی ہو گئی۔
وزارتِ دفاع کے مطابق، بھارت اب 100 سے زیادہ ممالک کو دفاعی سامان برآمد کرتا ہے، جن میں امریکہ، فرانس اور آرمینیا بڑے خریداروں میں شامل ہیں۔
ان دفاعی برآمدات میں میزائل، کشتیاں، توپیں، ریڈار نظام، راکٹ لانچر، سافٹ ویئر اور الیکٹرانک پرزہ جات شامل ہیں۔
’سنہری بصیرت‘
مئی کی یہ جھڑپ جوہری طاقت رکھنے والے ہمسایوں کے درمیان 1999 کے بعد سب سے شدید تھی، جس میں میزائل، ڈرون اور توپوں کی گولہ باری میں 70 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
دونوں ممالک نے فتح کا دعویٰ کیا اور ایک دوسرے کے لڑاکا طیارے مار گرانے کے 'ثبوت‘ پیش کیے۔
بھارتی فوج کے ایک سینیئر افسر نے کہا کہ جھڑپوں نے نئے ہتھیاروں کی کارکردگی پر ''بہت اچھا فہم‘‘ فراہم کیا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، یہ ہمارے لیے، اور ہمارے تیزی سے پھیلتے صنعتی شراکت داروں کے لیے، سنہری بصیرت تھے۔‘‘
ان ہتھیاروں میں ایک ''آکاش تیر‘‘ شامل تھا، جو گاڑی پر نصب فضائی دفاعی پلیٹ فارم ہے، مصنوعی ذہانت سے چلتا ہے اور میزائل و مسلح ڈرونز کو روکنے میں کامیاب رہا۔
بھارت نے پاکستانی فضائی اڈوں پر کئی طویل فاصلے تک مار کرنے والے براہموس کروز میزائل بھی داغے۔
روس کے ساتھ مشترکہ طور پر تیار کردہ یہ میزائل پہلے ہی فلپائن کو برآمد ہو چکے ہیں اور جھڑپ کے بعد مزید توجہ حاصل کر گئے۔
سنگھ نے جولائی میں ایک فوجی فیکٹری کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا، ''ان براہموس میزائلوں کی شاندار کارکردگی کے باعث 14 یا 15 ممالک نے انہیں خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔‘‘
ایشیا گروپ کنسلٹنسی کے اشوک ملک نے کہا کہ یہ تنازع "مارکیٹ ڈیمونسٹریٹر" ثابت ہوا۔
ان کے مطابق، ''یہ الگ بات ہے کہ میں کوئی چیز خریدوں جو آپ نے بنائی ہے، لیکن یہ بالکل مختلف بات ہے کہ میں وہ چیز خریدوں جو آپ نے بنائی اور میدانِ جنگ میں کامیابی سے استعمال بھی کی گئی۔‘‘
فضائی دفاع
بھارت کا دفاعی بجٹ پچھلی دہائی میں دوگنا سے زیادہ ہو کر 78 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
اسی دوران بھارت نے روسی ہتھیاروں پر انحصار کم کرنے کی کوشش کی ہے اور امریکہ، فرانس اور اسرائیل کے ساتھ درآمد و پیداوار کے معاہدے کیے ہیں۔
صنعتی ترقی کی یہ مہم اس وقت جاری ہے جب نئی دہلی کو واشنگٹن اور ماسکو کے ساتھ تعلقات متوازن رکھنے کے ساتھ ساتھ چین، جو پاکستان کا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کنندہ ہے، کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔
یہ توازن اس وقت مزید مشکل ہو گیا جب واشنگٹن نے روسی تیل خریدنے پر نئی دہلی کو سزا دیتے ہوئے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا۔
اسی لیے ''میک ان انڈیا‘‘ مہم چلائی جا رہی ہے، جس کے تحت بھارت لڑاکا طیاروں کے انجن تیار کرنے اور اسرائیلی طرز کا آئرن ڈوم جیسا نظام بنانے کا وعدہ کر رہا ہے، جسے ’’سدرشن چکر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
جو کہ ہندو اساطیر کے مطابق مہا بھارت کی لڑائی میں دیوتا وشنو کا ایک گھومنے والا ہتھیار تھا۔بھارت نے اپنے تیزی سے بڑھتے ڈرون سیکٹر پر بھی توجہ دی ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ 2030 تک 11 ارب ڈالر کا ہو سکتا ہے، جن میں کئی ماڈل اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ مل کر تیار کیے گئے ہیں۔
تاہم چیلنجز باقی ہیں۔
اپریل میں شہری ہوا بازی کے جونیئر وزیر مرلی دھر موہول نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ چھوٹے مگر اہم ڈرون پرزہ جات کا 39 فیصد ''چینی کمپنیوں‘‘ سے حاصل کیا گیا تھا۔
ادارت: صلاح الدین زین