Live Updates

امریکی اہلکار کا پاکستان کو افغان طالبان سے بات چیت کا مشورہ

DW ڈی ڈبلیو بدھ 17 ستمبر 2025 11:40

امریکی اہلکار کا پاکستان کو افغان طالبان سے بات چیت کا مشورہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) ایک اہم امریکی عہدیدار زلمے خلیل زاد، جنہیں ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے دوران افغانستان کے لیے امریکہ کا خصوصی نمائندہ نامزد کیا گیا تھا، کا کہنا ہے کہ عسکری طریقہ کار کے بجائے اسلام آباد کو کابل کے ساتھ بات چیت کے ذریعے سیاسی تصفیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا یہ بیان اس تناظر میں اہمیت کا حامل ہے کہ چند روز قبل ہی پاکستان نے افغان طالبان سے کہا تھا کہ انہیں اس بات کا انتخاب کرنا ہو گا کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے ہیں یا کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند گروپ کا ساتھ دینا چاہتے ہیں۔

امریکہ کے سابق سفارت کار نے حال ہی میں یرغمالیوں سے متعلق امریکی ایلچی ایڈم بوہلر کے ساتھ کابل کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے افغان طالبان کی حکومت کے اہم ارکان سے ملاقات کی۔

(جاری ہے)

امریکی عہدے دار نے مزید کیا کہا؟

اپنے کابل دورے کے اختتام کے بعد زلمے خلیل زاد نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور ٹی ٹی پی کے درمیان تشدد کے نتیجے میں سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو رہی ہے۔

یہ کہتے ہوئے کہ ان کی سمجھ سے اس چیلنج کا کوئی فوجی حل تلاش کرنا ایک غلطی ہو گی، زلمے خلیل زاد نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستانی طالبان کے ساتھ فوجی محاذ آرائی ختم کرے اور سفارتی حل کی طرف منتقل ہو۔ انہوں نے کہا کہ وہ "سیاسی حکمت عملی کی طرف بڑھیں اور مذاکرات کریں۔"

انہوں نے لکھا، "پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے 2021 سے پہلے ہمیشہ امریکہ اور افغان حکومت کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات اور سیاسی تصفیہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان بھی ایسا ہی کرنے پر غور کرے۔"

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اپنے ملک کے اندر امن اور پائیدار استحکام چاہتا ہے، تو اس کے لیے بات چیت کا آغاز بہت ضروری ہے۔"

البتہ امریکی سفارت کار نے افغانستان پر بھی زور دیا کہ وہ اس کوشش میں پاکستان کا ساتھ دے۔

موقع اور محل کی مناسبت سے اہم بیان

اس پیغام کا وقت اہم ہے، کیونکہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور فوجی سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے چند روز پہلے ہی افغانستان کے طالبان سے ایک سخت انتخاب کی بات کہی تھی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے آرمی چیف کے ہمراہ بنوں کے دورے کے دوران کہا تھا کہ "میں افغانستان کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستان اور ٹی ٹی پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔"

گرچہ صدر ٹرمپ اور امریکی فوجی حکام جیسے کہ سینٹ کام کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے بارہا پاکستان کے انسداد دہشت گردی تعاون کی تعریف کی ہے۔

تاہم خلیل زاد کے پیغام سے ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اسلام آباد اور کابل دونوں ہی کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے۔

واشنگٹن کے حلقوں میں زلمے خلیل زاد کو ایک عقابی سفارت کار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ جیل میں قید پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے ایک کھلے ہمدرد ہیں اور اس حوالے سے ماضی میں پاکستان کی سخت الفاظ میں تنقید بھی کر چکے ہیں۔

خلیل زاد کا تبصرہ عمران خان کے خیالات کی ہی بازگشت ہے، جنہوں نے خیبر پختونخواہ کے صوبے میں عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے بات چیت پر زور دیا ہے۔ اس صوبے میں پی ٹی آئی برسراقتدار ہے۔

منگل کو اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ میں عمران خان نے کہا کہ سابق قبائلی علاقوں میں شروع کی گئی کارروائیوں کے نتیجے میں پولیس، فوجی اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "یہ نقطہ نظر کبھی بھی امن قائم نہیں کر سکتا۔ پائیدار امن صرف بات چیت کے ذریعے آتا ہے۔"

انہوں نے الزام لگایا کہ کے پی میں جو کوشش ہو رہی ہے وہ محض پی ٹی آئی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش ہے اور دعویٰ کیا کہ فوجی آپریشن سے دہشت گردی کو مزید ہوا ملے گی۔

ادارت: جاوید اختر

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات