غزہ میں جنگ بندی اور امدادی ترسیل کی قرارداد امریکہ نے پھر ویٹو کر دی

یو این جمعہ 19 ستمبر 2025 05:15

غزہ میں جنگ بندی اور امدادی ترسیل کی قرارداد امریکہ نے پھر ویٹو کر دی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) غزہ میں فوری، غیرمشروط اور مستقل جنگ بندی کے مطالبے پر مبنی قرارداد امریکہ کی جانب سے ویٹو کیے جانے کے باعث منظور نہیں ہو سکی۔ 15 رکنی کونسل میں 14 ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔

قرارداد میں حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کی قید میں تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیرمشروط رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔

اس میں اسرائیل کی حکومت سے کہا گیا کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر عائد تمام پابندیاں اور رکاوٹیں فوری طور پر ہٹائے، ضرورت مند لوگوں کو مدد تک محفوظ اور بلارکاوٹ رسائی دے اور اس کی اقوام متحدہ و امدادی شراکت داروں کے ذریعے تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ انسانی امداد کی تقسیم کا عمل غزہ بھر میں بڑے پیمانے پر اور بین الاقوامی امدادی قانون اور انسانیت، غیرجانبداری، غیرطرفداری اور خودمختاری جیسے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

اس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل غزہ میں شہریوں کے لیے تمام بنیادی سہولیات کی مکمل بحالی کو یقینی بنائے۔

یہ قرارداد سلامتی کونسل کے 10 غیرمستقل ارکان کی جانب سے پیش کی گئی جن میں پاکستان، پانامہ، الجزائر، جمہوریہ کوریا، ڈنمارک، سلوانیہ، سیرالیون، صومالیہ، گیانا اور یونان شامل ہیں۔

امریکہ کا موقف

اقوام متحدہ میں امریکہ کے مشن کی نمائندہ مورگن اورٹیگس نے رائے شماری سے قبل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مسودے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جھوٹا اور خطرناک توازن قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ان دونوں کا آپس میں کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس قرارداد میں یرغمالیوں کا ذکر محض ایک ثانوی خیال کے طور پر کیا گیا ہے۔ امریکہ اس قرارداد کو کبھی قبول نہیں کرے گا اور صدر ٹرمپ بھی اسے کبھی قبول نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قرارداد ایک ایسے امدادی نظام کی ناکامی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے جس نے حماس کو ان مظلوم شہریوں کی قیمت پر مالی معاونت اور طاقت حاصل کرنے کا موقع دیا جنہیں امداد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

خونریزی روکنے کا مطالبہ

اقوام متحدہ میں برطانیہ کی مستقل سفیر باربرا ووڈورڈ نے کہا کہ ان کے ملک نے غزہ میں سنگین انسانی بحران سے نمٹنے، یرغمالیوں کی واپسی اور تنازع کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کے لیے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔

غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، تاہم، اسرائیل کی جانب سے عسکری کارروائی کو لاپرواہانہ طور سے وسعت دینے کے نتیجے میں ایسے معاہدے کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے جس سے یرغمالیوں کی واپسی اور غزہ میں لوگوں کی تکالیف کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔

انہوں نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ خونریزی بند کرے، غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل پر پابندیاں فوری طور پر ختم کرے اور اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کو انسانی جانیں بچانے کے لیے علاقے میں کام کرنے کی اجازت دے۔ برطانیہ محفوظ اسرائیل کے ساتھ خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے شراکت داروں کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

غزہ شہر پر حملے کی مذمت

اقوام متحدہ میں فرانس کے مستقل سفیر جیروم بونافوں نے کہا کہ یہ قرارداد انسانی مسائل کے تناظر میں لائی گئی جس میں تین اہم مطالبات کو دہرایا گیا۔ ان کا ملک غزہ شہر میں اسرائیلی حملے کے پھیلاؤ اور اس کے شدت اختیار کرنے کی سخت مذمت کرتا ہے۔

انہوں نے اپنے ملک کی جانب سے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ اس تباہ کن مہم کو ختم کرے، جس کا اب کوئی عسکری جواز باقی نہیں رہا اور جنگ بندی کے حصول اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کے مقصد سے جلد از جلد مذاکرات کا آغاز کرے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ انسانی آبادی کو بھوکا رکھنا جرم ہے اور ان کا ملک ان امدادی کارکنوں کے ساتھ کھڑا ہے جو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر لوگوں کو مدد دے رہے ہیں۔

سفیر نے توثیق کی کہ فرانس 22 ستمبر کو سعودی عرب کے ساتھ مل کر فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل سے متعلق کانفرنس اور دیگر اقدامات کے ذریعے خطے میں پائیدار امن کے لیے کوششیں کرتا رہے گا۔

سلامتی کونسل کی ناکامی

صومالیہ کے مستقل سفیر ابوبکر عثمان نے کہا کہ غزہ کی صورتحال انتہائی سنگین ہے اور فوری توجہ کا تقاضا کرتی ہے۔ دنیا سلامتی کونسل کی جانب دیکھ رہی ہے کہ وہ کوئی اقدام کرے، لیکن آج کونسل ایک ایسی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی جو غزہ کے عوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔

انہوں نے قرارداد کی عدم منظوری کو ایک سنگین اخلاقی ناکامی قرار دیتے ہوئے ان تمام ممالک کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے قرارداد کے مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔

غزہ کے لوگوں سے معذرت

اقوام متحدہ میں الجزائر کے مستقل سفیر عمار بن جامہ نے فلسطینی عوام بالخصوص غزہ کے لوگوں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کونسل ان 18 ہزار سے زیادہ بچوں، 12 ہزار سے زیادہ خواتین اور چار ہزار سے زیادہ معمر افراد کو نہیں بچا سکی جنہیں اسرائیل نے قتل کیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ سبھی کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا انہیں نسل کشی کو روکنا ہے یا ان لوگوں میں شامل ہونا ہے جو اس کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

دس ہزارواں اجلاس

یہ اقوام متحدہ کی پندرہ رکنی سلامتی کونسل کا دس ہزارواں اجلاس تھا جو غزہ میں قحط کے گہرے ہوتے سایوں اور اسرائیل کے جارحانہ عسکری آپریشن کے پس منظر میں اس امید کے ساتھ منعقد ہوا کہ غزہ میں جنگ بندی اور بھوک سے نڈھال لوگوں تک امداد کی فوری ترسیل ممکن ہو سکے گی۔ لیکن قرارداد ویٹو ہونے کے بعد سلامتی کونسل کا یہ سنگ میل مایوسی پر ختم ہوا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی طرف سے قائم کردہ ایک کمیشن آف انکوائری نے اس ہفتے منگل کو اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔

سلامتی کونسل کی کارروائی دیکھیے