اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) حکام نے بتایا کہ پہلا حملہ بلوچستان کے ضلع تربت میں ہوا جب ایک خودکش بمبار نے اپنی گاڑی کو سکیورٹی قافلے سے ٹکرا دیا۔ ایک پولیس اہلکار الٰہی بخش کے مطابق اس حملے میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 23 زخمی ہوئے۔
ایک سرکاری منتظم امتیاز علی نے بتایا کہ اس کے چند ہی گھنٹے بعد افغان سرحد کے قریب جنوب مغربی شہر چمن میں ایک اور کار بم دھماکہ ہوا، جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔
کسی گروپ نے ان حملوں کی فوری طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن شبہ پاکستانی طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں پر کیا جا رہا ہے، جو صوبے میں اکثر سکیورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
یہ تازہ حملہ اس واقعے کے دو ہفتے بعد ہوا جب ایک خودکش بمبار نے کوئٹہ شہر کے قریب ایک اسٹیڈیم کے باہر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جب ایک قوم پرست جماعت کے حامی جلسے سے نکل رہے تھے۔
(جاری ہے)
ان حملوں کے بارے میں ہم اور کیا جانتے ہیں؟
حکام کے مطابق چمن میں ہونے والا دھماکہ شام کے وقت پاک افغان سرحد کے قریب ایک مصروف ٹیکسی اسٹینڈ پر ہوا، جس میں چار افراد موقع پر ہی ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں زخمی بھی دم توڑ گئے، جس سے ہلاکتوں کی تعداد چھ ہو گئی۔
اسسٹنٹ کمشنر چمن، امتیاز بلوچ نے بتایا کہ دھماکہ عارضی دکانوں کے قریب ہوا۔
پولیس اور لیویز فورس موقع پر پہنچیں اور لاشوں اور زخمیوں کو ضلعی اسپتال منتقل کیا۔عینی شاہدین کے مطابق دھماکے سے لاشیں مسخ ہو گئی تھیں اور جسمانی اعضا ادھر ادھر بکھر گئے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکسی اسٹینڈ کی دکانوں کے باہر دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔
ایک علیحدہ واقعے میں نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے قلات ڈویژن کے علاقے منگوچر میں دستی بم حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں چار افراد، جن میں دو فرنٹیئر کور اہلکار بھی شامل ہیں، زخمی ہوگئے۔
حملوں کی مذمت
وزیراعظم ہاؤس کے پریس ونگ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ شہباز شریف نے ’’پاک افغان سرحد کے قریب چمن میں کار پارکنگ ایریا میں ہونے والے بم دھماکے میں چھ قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔‘‘
انہوں نے بم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں شرپسندی پھیلانے والے عناصر بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کے دشمن ہیں لیکن حکومت شرپسندوں کے مذموم مقاصد کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔
دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ
پاکستان میں حالیہ برسوں میں عسکریت پسندانہ تشدد میں اضافہ ہوا ہے، جن میں زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پاکستانی طالبان، جسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کہا جاتا ہے، نے قبول کی ہے۔
یہ گروہ افغان طالبان سے الگ ہے لیکن ان کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر علیحدگی پسند گروہ بھی اکثر بلوچستان میں حملے کرتے ہیں۔ یہ صوبہ طویل عرصے سے بغاوت کا مرکز رہا ہے، جہاں علیحدگی پسند مرکزی حکومت سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں اس سال کئی سنگین حملے ہوئے۔ مارچ میں کالعدم بی ایل اے نے ایک مسافر ریل گاڑی کو ہائی جیک کر لیا تھا۔ مئی میں خضدار میں ایک اسکول بس کو خودکش بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا، جس میں متعدد بچے جان سے گئے۔
ادارت: صلاح الدین زین